یہاں جمہوریت ایک دھوکہ ہے ۔ گوریچ بلوچ

330

یہاں جمہوریت ایک دھوکہ ہے 

تحریر: گوریچ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی معدنیات کا تحفظ سیاسی اکابرین کے اوپر فرض ہے وفاق کو 50 فیصد اور بلوچستان کو پچیس فیصد دینا بلوچستان کے عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔ بحثیت بلوچستان کے وارث یہاں کے مکینوں کو پاؤں میں پہننے کے لئے چپل تک میسر نہیں ہیں۔

ریکوڈک کا سونا ہو یا سوئی گیس کے ذخائر بولان کی خام تیل ہو یا پھر مچھ اور دوسرے علاقوں کا یہ سب بلوچستان کے ذخائرہیں اور ان کے والی وارث بلوچستان کے لوگ ہیں۔

یہاں کی معدنیات یہاں استعمال ہونے کی بجائے باقی صوبوں میں استعمال ہونا بلوچوں اور یہاں پر بسنے والے دوسرے اقوام کا پوری طرح سے استحصال ہے۔ یہاں کے سیاسی جماعتیں اپنا حصہ بٹور کر الزام دوسروں پر عائد کردیتے ہیں حالیہ کچھ دنوں سے بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے مابین جو سیاسی گہما گہمی چل رہی وہ سب دکھاوا ہے باقی کچھ نہیں۔

لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرکے پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو روز اول سے اس تجویز کی مخالفت کی ہے، ہم اس فیصلے کے بالکل حق میں نہیں بلکہ ہمیں تو بالکل اعتماد میں نہیں لیا گیا اس فیصلے یا قرار داد کی ہم بھر پور مزمت کرتے ہیں۔

کتنا عرصہ ہوچکا ہے کتنی حکومتیں یہاں آئی اور کتنی چلی گئیں کیا کچھ بدلا یہاں کچھ بدلنے والا نہیں یہاں پر جس کی لاٹھی ہوتی ہے بھینس بھی اسی کی ہوتی ہے بلوچستان کے عوام کو ورغلایا جارہا ہے نہ یہاں جمہوریت ہے نہ آئین ہے اور نہ ہی قانون۔ یہاں پر صرف نام کی سیاست ہورہی ہے۔

بلوچستان میں جو بھی حکومت اقتدار میں ہوتی ہے وہ برائے نام ہے اس کی بھاگ دوڑ کوئی اور چلا رہا ہوتا ہے۔ کوئی بھی مخلص قیادت بلوچستان کے نصیب میں ہے ہی نہیں۔

محمود خان اچکزئی ہو یا سردار اخترمینگل مالک بلوچ ہو یا قدوس بزنجو سب اقتدار کے بھوکے ہیں عوام کا ان کو کوئی لحاظ کوئی خاطر نہیں انتخابات سے پہلے بہت دعوے کرتے ہیں یا کبھی اسٹیج پر آکر بہت اچھی باشن دیتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو بچوں کے جیسے ورغلایا جاتا ہے ایک آدھ جذباتی تقریر کرکے یا عسکری اداروں کے اوپر تین چار الفاظ کس کے سمجھ لیتے ہیں ہم نے اپنا فرض بخوبی انجام دیا ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آتی جب یہ لوگ قانون عدلیہ اور جمہوری نظام سے نا امید ہیں پھر کیوں یہ لوگ اقتدار کی جھولی میں اوٹک بھیٹک کر رہے ہیں۔

ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے ہمارے سیاسی اکابرین اسلام میں بیٹھے ہوئے تھے خضدار میں وقوع پذیر ہونے والی گیس نکالنے کے اور اس کی سیکیورٹی کے متعلق مشاورت جاری تھی جس کی رو سے وہاں سے نکلنے والی گیس ذخائر کی سیکیورٹی پر مقامی لوگ تعینات کردیے جائیں گے اور ںوکریاں بھی مقامی لوگوں کے ہونگی اور یہ گیس فروخت کرکے پاکستان کے قرضے اتارے جائیں۔

آج یہی لوگ اس فیصلے پر متفق ہیں کل یہی لوگ واویلا کریں کہ بھئی ہمیں تو نظرانداز کیا، ہماری تو بات سنی نہیں جارہی۔ بھئی جب انہوں نے تمہارے باپ داداوں کا پاس نہیں رکھا تو تم لوگ اس سےکیوں توقعات رکھ رہے ہو۔

ان کے سامنے قانون محض کاغذ کا ٹکڑا ہے اور کچھ بھی نہیں یہاں خان آف قلات سے معائدہ کرکے انہیں گرفتار کردیا جاتا ہے بابو نوروز کو قران پر حلف لے کر پہاڑوں سے نیچے اترواکر انہیں زندان میں ڈال دیا جاتا ہے تو اپ لوگ کیسے اور کس لحاظ و کس امید سے غیر اے اپنی سلامتی کی توقع کر رہے ہو؟

یہاں کے تو مقتدر قوتوں کے اعلیٰ عہدیدر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک جاکر اپنی زندگی کے آخری ایام گزارتے ہیں جب انہیں ہی نہیں پڑھی ترقی و خوشحالی کی تو اپ لوگ کہاں سے ترقی و خوشحالی لاوگے۔

آپ لوگ کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو کھلے دل سے تسلیم کرلو کہ آپ عوام کو دھوکہ دے رہے یا تو جمہوریت سے کنارہ اختیار کرتے ہوئے عوام کے ساتھ مزاحمت کا راستہ اپناو تاکہ تاریخ تمہیں سنہری القاب میں یاد رکھ سکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں