بشیر زیب بلوچ: بلوچ لبریشن آرمی کا ریڈیکل لیڈر

3408

بشیر زیب بلوچ: بلوچ لبریشن آرمی کا ریڈیکل لیڈر

تحریر: کِیا بلوچ

ترجمہ : دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان کا جنوب مغربی خطہ بلوچستان، خونریزی اور پاکستان سے علیحدگی کے خواہاں بلوچ علیحدگی پسند اور قوم پرست عسکریت پسندوں کے حملوں میں ڈرامائی اضافے کا سامنا کر رہا ہے۔ 2018 سے بلوچستان میں پاکستانی فورسز اور چینی شہریوں پر منظم حملوں اور خودکش حملوں کا ایک نیا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں 26 ستمبر کو، بلوچ لبریشن آرمی نے ایک پاکستانی فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرانے اور چھ فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ پاکستانی فوج نے جنوب مغربی بلوچستان میں رات گئے ایک مشن کے دوران حادثے کی تصدیق کی اور تسلیم کیا کہ اس واقعے میں انکے تمام چھ فوجی ہلاک ہو گئے ہیں، لیکن حادثے کی وجہ کی وضاحت نہیں کی گئی۔ ہیلی کاپٹر ابتدائی طور پر دو اہلکاروں کو بچانے کے لیے روانہ کیا گیا تھا، جنہیں بی ایل اے نے حراست میں لیا تھا۔

اس سے قبل، بی ایل اے کا ایک اور مہلک حملہ اپریل میں کراچی میں ہوا تھا، جب ایک منی بس کو ایک خاتون خودکش بمبار نے نشانہ بنایا تھا، جس میں تین چینی شہری اور ان کا پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے قبل، فروری میں، بی ایل اے نے بلوچستان کے پنجگور اور نوشکی اضلاع میں یکے بعد دیگر دو فدائی حملے کیے تھے۔ بی ایل اے نے 195 فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اس تعداد کو پاکستانی فوج نے مسترد کر دیا تھا۔

اس طرح کے منظم اور بڑے پیمانے پر حملے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچ باغی اور خاص طور پر بی ایل اے وقت کے ساتھ ساتھ مزید مہلک ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پرانی حکمت عملی “مارو اور بھاگو” کو فدائی حملوں میں بدل دیا ہے۔ لیکن حکمت عملی میں اتنی ڈرامائی تبدیلی کیوں آئی؟ اور بی ایل اے میں بڑھتی ہوئی جدت و نفاست کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ کیا یہ وجہ بشیرزیب بلوچ کی صورت میں بی ایل اے کی قیادت میں تبدیلی ہوسکتی ہے؟

بشیر زیب بلوچ کون ہیں؟

بی ایل اے کے نئے چالیس سالہ سربراہ، بشیر زیب، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے، ایک پرسکون اور خوش گفتار آدمی ہیں۔ بی ایل اے کے سابق سپریم لیڈر اسلم بلوچ کی 25 دسمبر 2018 کو افغانستان کے صوبہ قندھار میں مبینہ طور پر پاکستانی انٹیلی جنس سے منسلک ایک خفیہ خودکش بمبار کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد، زیب کو سینئر کمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی نے متفقہ طور پر بی ایل اے کا سپریم کمانڈر منتخب کیا۔ اس کے بعد بشیر زیب نے اسلم بلوچ کی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے، بی ایل اے کی حکمت عملی کو مضبوط بناتے ہوئے، مزید ہلاکتوں اور فدائی حملوں کے سلسلے کو جاری رکھا۔

زیب بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 145 کلومیٹر مشرق میں واقع قصبے نوشکی سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کا بیٹا ہے۔ ان کا تعلق بلوچوں کے محمد حسنی قبیلے سے ہے، جو بلوچستان کے متعدد اضلاع میں بکھری ہوئی سب سے بڑے قبائل میں سے ایک ہے۔ نوشکی میں اپنی پرائمری تعلیم پوری کرنے کے بعد، انہوں نے کوئٹہ کے ڈگری کالج سے اپنی 12 سالہ باقاعدہ تعلیم مکمل کی۔

ہائر سیکنڈری اسکولنگ کی تکمیل کے بعد زیب کوئٹہ کے پولی ٹیکنیک کالج میں داخل ہوئے اور مکینیکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ اس کے بعد زیب نے 2008 میں بلوچ لٹریچر میں ماسٹرز پروگرام میں داخلہ حاصل کرلیا۔ اس دوران وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین بھی رہے۔ آزادی پسند طلبا تنظیم بی ایس او آزاد بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کے لیے مہم چلارہی ہے۔ زیب ۲۰۰۶ سے ۲۰۱۲ تک بی ایس او آزاد کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ نتیجتاً، 2008 میں بلوچستان یونیورسٹی میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا، اور ان پر یونیورسٹی میں کئی چھاپے مارے گئے۔ تاکہ یونیورسٹی سے اسے گرفتار کیا جائے۔ لیکن زیب ان تمام چھاپوں میں محفوظ رہے۔

مارچ 2013 میں بی ایس او آزاد پر ملک گیر پابندی عائد کردی گئی، لیکن اس عمل نے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے، عسکریت پسندی کے ایک نئے مرحلے کو جنم دیا کیونکہ بی ایس او کے بہت سے رہنما، کارکنان اور اراکین بلوچ مسلح تنظیموں میں شامل ہونے پر مجبور ہوگئے۔

مثال کے طور پر زیب نے خود 2012 میں بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بہت سے دوستوں کو بی ایل اے میں شامل کیا۔ کبھی قبائلی سرداروں اور جاگیرداروں کی قیادت میں رہنے والا بی ایل اے، آج، متوسط طبقے کے سابق بی ایس او آزاد کارکنان، ڈاکٹرز، انجینئرز، اور حتیٰ کہ ایک سابق پاکستانی فوجی اہلکار کی سربراہی میں متحرک ہے۔ پاکستانی فوج کے ایک کپتان رحمٰن گل، اب بی ایل اے کے فدائی حملہ آوروں کو تربیت دیتے ہیں، وہ مجید بریگیڈ کی قیادت کررہے ہیں اور زیب کے بعد بی ایل اے کے سب سے معروف چہرے ہیں۔

بی ایل اے میں شامل ہونے سے پہلے، زیب اکثر کوئٹہ میں پاکستان مخالف لٹریچر تقسیم کرتے ہوئے پایا جاتا تھا، جو نوجوانوں کو معدنیات سے مالا مال بلوچستان کے وسائل کے بارے میں آگاہ کرتا تھا، جس کے بارے میں وہ دلیل دیتے تھے کہ پاکستان کے سب سے بڑے اور طاقتور صوبے کے پنجابیوں کی طرف سے لوٹ مار کی جارہی ہے۔ وہ بڑی سیاسی ریلیوں کا انعقاد کرتے تھے، کالعدم بی ایس او آزاد کے لیے نئے ارکان بھرتی، اور ساتھی طلبا کو پاکستانی ریاست کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے متحرک کرتے تھے۔

2010 میں، پاکستانی فوج نے بی ایس او آزاد کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن شروع کردیا، جس میں اس کے کئی ارکان کو گرفتار اور قتل کر دیا گیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ زیرزمین جانے یا مسلح جدوجہد میں شامل ہونے پر مجبور ہوئے۔ آپریشنل سیکورٹی کو برقرار رکھنے کے لیے بی ایس او آزاد کی سرگرمیوں کو صحافیوں سے دور رکھا گیا تھا، جس کا مطلب یہ نکلا کہ زیب آج تک ایک معمہ بنے ہوئے ہیں۔

اپنے پیشرو اسلم بلوچ اور BLF کے بانی و سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر کی طرح زیب بھی بھرتی کرنے اور چین اور پاکستان کو وارننگ دینے کے لیے سوشل میڈیا کو فعال طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جس سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہورہاہے۔ فروری میں جاری ہونے والے ایک ویڈیو پیغام میں، سابق طالب علم رہنما نے “پاکستان کے خلاف شدید جنگ” کا انتباہ دیا اور بلوچ نوجوانوں کو BLA میں شمولیت کی دعوت دی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’آج ہمارے وسائل نیلام کیئے جارہے ہیں‘‘ اور ’’بدقسمتی سے کوئی اٹھ کر بلوچ نمائندگی کے نام پر حصہ مانگتا ہے، فیصد مانگتا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہمیں 25% دو۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہمیں 50 فیصد دیں۔ تاریخ میں جب فاتحین نے کسی علاقے کو فتح کیا تو انہوں نے اس پر قبضہ کرکے لوٹ مار شروع کر دی، اور آج بھی وہی ہورہا ہے، بس قابض کا رنگ مختلف ہے۔”

زیب کی بی ایل اے کی قیادت نے یہ خدشہ بڑھا دیا ہے کہ مستقبل میں بلوچ تحریک مزید پرتشدد ہو سکتی ہے۔ 2018 میں گروپ کی کمان سنبھالنے کے بعد سے، گروپ کی حکمت عملی میں کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں جن کے بارے میں پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ اس کا تعلق افغانستان کے موجودہ بحران سے ہے۔ ان تبدیلیوں میں زیب کی قیادت میں پانچ خودکش حملے شامل ہیں۔ پاکستان کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ مغرب اور بھارت بلوچ باغیوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کریں گی تاکہ بلوچستان میں شورش کو مزید ہوا دی جا سکے اور خطے میں چینی سرمایہ کاری کو روکا جا سکے۔ زیب اپنے ویڈیو پیغامات کے ذریعے پاکستان میں چینی موجودگی کا مقابلہ کرنے کیلئے بلوچ جہدکاروں کی مدد کرنے کے لیے امریکہ، یورپی یونین اور بھارت پر بھی زور دیتا رہا ہے۔

اختتامیہ

بشیر زیب، بلوچ تحریک آزادی میں شامل ہونے والی تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے نوجوانوں کی نئی نسل سے ہیں۔ جیسے جیسے پاکستان بی ایل اے اور دیگر بلوچ آزادی پسند گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے گی، اس سے زیادہ زیادہ بلوچستان میں امن کے عارضی لمحات ہی ممکن ہوں گے۔ مزید یہ کہ، سیکیورٹی پر مبنی نقطہ نظر بلوچ نوجوانوں میں ناراضگی کو بڑھاتا رہے گا اور وہ بی ایل اے جیسی عسکریت پسند تنظیموں کی صفوں میں شامل ہوتے رہیں گے۔

بلوچستان کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد کے غیر سیاسی نقطہ نظر سے بشیر زیب بلوچ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید فائدہ اٹھائیں گے اور ممکنہ طور پر نئے اور شدید طریقہ کار اپناتے رہیں گے۔ جو بی ایل اے کو مزید مستحکم کرتی جائیگی۔

ایسا لگتا ہے کہ زیب کی سربراہی میں بی ایل اے مزید متحرک ہو گئی ہے۔ لہٰذا پاکستان زیب کو مارنے یا پکڑنے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے گا۔ تاہم، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا بی ایل اے کی اعلیٰ قیادت کو مارنے سے پاکستان کو طویل المدتی فوائد حاصل ہونگے یا نہیں کیونکہ بی ایل اے ہر آنے والی نسل کے ساتھ مزید مضبوط اور مہلک ہوتی دکھائی دے رہی ہے، جیسا کہ اسلم بلوچ کے قتل کے بعد دیکھا گیا۔

خود زیب نے بھی زور دے کر کہا ہے کہ وہ زندہ رہیں یا نہیں یہ تحریک آگے بڑھے گی۔ بقول انکے “نظریے کے لحاظ سے، فکر کی لحاظ سے، حوصلے کے لحاظ سے، بلوچ نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں ہے”۔

نوٹ: یہ مضمون پہلے جمیز ٹاون میں شائع ہوچکی ہے، جسے شکریہ کے ساتھ دی بلوچستان پوسٹ ترجمہ کرکے شائع کررہا ہے۔ اس مضمون کے لکھاری کیا بلوچ ہیں، وہ ایک فری لانس صحافی کی حیثیت سے بلوچستان میں شورش، سیاست، اور بلوچ عسکریت پسندی پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ وہ @KiyyaBaloch سے ٹویٹ کرتے ہیں۔