اوہ! تابوت میں سوئے میرے پیارے مسیح اب میں کیا کروں؟ ۔ محمد خان داؤد

236

اوہ! تابوت میں سوئے میرے پیارے مسیح اب میں کیا کروں؟

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب یسوع اہلِ یروشلم کے ہاتھوں مصلوب ہوکر تابوت میں پڑا تھا تو مریم نے تابوت کو چھو کر کہا تھا
”اوہ! تابوت میں سوئے میرے پیارے مسیح اب میں کیا کروں؟
اس سے پہلے جب یروشلم کے پہاڑوں کے درمیاں مسیح مصلوب تھا۔سورج پہاڑوں کے پیچھے ڈھل چکا تھا، چاند بھی”ان پورا“ تھا یروشلم کی گلیاں اور پہاڑ اندھیرے میں گھرِ چکے تھے۔ جب مریم اکیلی چلی تھی۔مصلوب یسوع کے پاس پہنچی تھی اور جو یسوع سے کہا وہ اب بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
مریم نے مسیح سے کہا
”میں تمہیں پھر چھونا چاہتی ہوں۔۔۔۔ یسوع!
ایسا لگ رہا ہے کہ میں بالکل اندھی ہوں۔اتنا اندھیرہ ہے
میں تمہیں یاد رکھنا چاہتی ہوں
چاہیے یہ میری انگلیاں ہی ہوں جو تمہیں یاد رکھیں“
پر وہ بلوچ ماں تو مریم نہیں۔اور وہ نہ یہ جانتی تھی کہ اس کا شاعر بیٹا کہاں مصلوب ہے۔اور بلو چستان تو یروشلم بھی نہیں۔اگر وہ بلوچ ماں یہ جانتی ہو تی کہ اس کا یسوع جیسا بیٹا کہاں مصلوب ہے۔تو وہ ڈھلتے سورج کو یہ ضرور منت کرتی جیسی منت سسئی نے پنہو ں کی تلاش کے دوران کی تھی کہ
”آؤن نہ گڈیس پرین کھے
تون تھو لھین سج؟“
”میں تو ابھی پنہوں سے نہیں مل پائی اور سورج تم ڈوب رہے ہو“
سورج ڈھلنے سے رُک جاتا۔اور بلوچ ماں یسوع جیسے شاعر بیٹے کی تلاش میں نکل پڑتی۔اگر سورج ڈھل جاتا تو وہ ماں چاند کی روشنی میں سفر تلاش یار کرتی۔اگر چاند بھی اک ماں سے چھپ کر بادلوں کی نظر ہوجاتا وہ ماں رات کی تاریکی میں بھی مصلوب یسوع سے ملتی اور اسے کہتی
”میں تمہیں پھر چھونا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔یسوع!
ایسا لگ رہا ہے کہ میں بلکل اندھی ہوں۔اتنا اندھیرہ ہے
میں تمہیں یاد رکھنا چاہتی ہوں
چاہیے یہ میری انگلیاں ہی ہوں جو تمہیں یاد رکھیں!“
پر وہ ماں یروشلم کی مریم نہ تھی وہ ماں تو دیس بد اماں کی بلوچ بیٹی ہے جسے کچھ خبر نہیں کہ اس کا معصوم دل والا شاعر بیٹا کس کال کوٹھڑی میں بند تھا اور اپنے شاعری جیسے جسم پر کیا کچھ جھیلتا رہا آخر بارود اس شاعر کے جسم سے آر پار ہوا اور اب وہ ایک تابوت میں بند اس ماں کے سامنے پڑا ہوا ہے۔جو ماں مریم تو نہیں۔پر ماں ضرور ہے۔اور مائیں سب ایک جیسی ہو تی ہیں
چاہیے یروشلم کے یسوع کی
چاہیے بلوچ شاعر تابش کی
دل ایک جیسے
دل کا ڈوبنا ایک جیسا
آنکھیں ایک جیسی
آنسو ایک جیسے
آہ و پکار ایک جیسی
قبر ایک جیسی
کفن ایک جیسا
دفن ایک جیسا
اور تازی قبروں سے ماؤں کالوٹنا ایک جیسا
پر اب جب بلوچ ماں کے سامنے بلوچ شاعر کا لہو لہو شاعری جیسا لہو ٹپکتا وجود پڑا ہوا ہے
تو بلوچ ماں کے لبوں پر وہی صدا ہے جو کئی صدیاں پہلے یروشلم کی مریم کے لبوں پر تھی
”اوہ۔۔۔۔۔۔تابوت میں سوئے میرے پیارے مسیح اب میں کیا کروں؟
اور یہ ماں کیا کرے؟
یار کو روئے؟
بے بسی کو روئے
حال دل پہ روئے؟
ماتم یار کرے
قتلِ آپ کرے؟
خدا کو روئے؟
آخر کیا کرے؟
اس بلوچ ماں نے تو شاعر بلوچ بیٹے سے وہ فرمائیش بھی نہیں کی جو سیاہ رات میں ایک ماں نے یسوع سے کی تھی کہ
”میں تمہیں پھر چھونا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔یسوع!
ایسا لگ رہا ہے کہ میں بلکل اندھی ہوں۔اتنا اندھیرہ ہے
میں تمہیں یاد رکھنا چاہتی ہوں
چاہیے یہ میری انگلیاں ہی ہوں جو تمہیں یاد رکھیں!“
ماں نے تو دل بھر کے اسے دیکھا بھی نہ تھا کہ دفن کرنا پڑا
کانپتے ہاتھوں سے
لرزتے ہاتھوں سے
ڈوبتی آنکھوں سے
ریزہ ریزہ دل سے
میں!آپ۔یہ۔وہ۔کچھ نہیں جانتے کہ بیٹوں کے جسم دفن کرتے وقت ماؤں پر کیا گزرتی ہے
یہ کیا دردِ دل ہے!
اسے سمجھنے کو ماں ہونا ضرورری ہے
جس نے دنیا کے نامعلوم شاعر پر بارود برسایا وہ بھی مائیں نہیں۔اور جنہوں نے شاعر کو سپرد خاک کیا وہ بھی مائیں نہیں۔پر جس نے پہاڑوں کے دامنوں کے کچے گھر میں اسے جنا وہ ماں ہے۔جس نے اس کی پہلی ہنسی دیکھی وہ ماں ہے۔جس نے بات کرنے سے پہلے اس ہنسنا سکھایا وہ ماں ہے۔جس نے اس کے کومل جسم پر پاؤڈر ملا وہ ماں ہے۔جس نے اس کے لمبے سیاہ بالوں میں تیل لگا کر کنگی کی وہ ماں ہے۔جس نے اس کی پہلی بولی سنی وہ ماں ہے۔جو اسے اُٹھائے اُٹھائے پھرتی رہی۔حاملہ ہوئی۔وہ ماں ہے۔جس نے اسے بہانوں میں لیا۔پیار کیا اور گلابی گلابی گال چومیں وہ ماں ہے۔اس شاعر نے پہلی نظم لکھی ان پڑھ ماں کچھ نہ سمجھی۔اس شاعر نے ماں کو وہ نظم سنائی اور ماں نے سب سے پہلے داد دی وہ ماں تھی۔ماں اس کی سب سے پہلی ریڈر تھی!
اس سے جس نے محبت کی وہ ماں تھی
اور اب جو رات کے آخری پہروں میں اس کے لیے رو رہی ہے وہ ماں ہے!
وہ شاعر تھا۔پر وہ بلوچ ماں کی پہلی کتاب تھا۔اور اس بلوچ ماں کی پہلی کتاب کی وہ سب سے پیاری نظم
تھی!وہ نظم دہشت کے ہاتھوں قتل ہوئی اور پہاڑوں کے دامنوں میں لفظ لفظ بکھر گئی
بلوچ دھرتی پر شاعر قتل ہو رہے ہیں۔نظمیں ما ری جا رہی ہیں
اور مائیں حشر ماتم میں ہیں
ایک دیس کے بیٹے کے لیے نہ روئیں
ایک ماں کے بیٹے کے لیے بھی نہ روئیں
پر ایک شعور کے لیے تو روئیں
ایک (ڈات)کے لیے تو روئیں
ایک شاعر کے لیے تو روئیں
جب دھرتی پر شاعر کا جنم ہوتا ہے تو ہوائیں حاملہ ہو تی ہیں
اور وہ ہوائیں جس جس دوشیزہ کے گال چوم لیتی ہیں وہ حاملہ ہو جا تی ہیں
اور جب ایک شاعر کو قتل کر دیا جاتا ہے
تو ہوائیں قتل ہو جاتی ہیں اور سانسیں رُکنے لگتی ہیں
ہواؤں کے مقتل پر تو روئیں
سانسوں کے رُکنے پر تو روئیں
اس سے پہلے کے دھرتی کے سارے شاعر مارے جائیں
چلو تابش کے تابوت پر روئیں
نہ تو
نہ میں
نہ خدا
دیس کی مائیں
یتیم۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں