پاکستان ہمیں ہماری ثقافت، زبان و شناخت سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ – بی این ایم برلن کانفرنس

364

جرمنی کے شہر برلن میں بی این ایم کے ایک روزہ کانفرنس کے دوسرےحصے میں بلوچستان میں بڑھتی ہوئی جبری گمشدگی اور بینالاقوامی برادری کے کردار پر مباحثہ کیا گیا۔ دوسرے سیشن میں نامور ادیب و دانشور ڈاکٹر عائشہ صدیقہ، تاریخ نویس ڈاکٹر نصیردشتی اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے خطاب کیا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان میں بلوچوں کو درپیش مسائل میں سے جبری گمشدگی اور قتل کرکےلاشیں پھینکنے کی ریاستی پالیسی سب سے سے بڑا مسئلہ ہے۔

انھوں نے کہا حال ہی میں شال میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاجی دھرنے میں جبری لاپتہ افراد کے خاتون رشتہ دار، انکی ماں ، بہنیں اور بیٹیاں ایک ہاتھ میں اپنے بچوں اور دوسرے ہاتھ میں مائک پکڑ کر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے فریاد کر رہیتھیں۔احتجاج میں بیٹھیں خواتین کے عزیز دہائیوں سے جبری لاپتہ ہیں۔رواں سال جولائی میں پاکستانی فورسز نے جعلی مقابلے میں11 زیرحراست جبری لاپتہ افراد کو قتل کرکے ان کی لاشیں پھینکیں۔

جعلی مقابلوں میں شہریوں کا قتل کرنے  کا سلسلہ بلوچستان میں نیا نہیں۔1970ء میں گاؤں کے گاؤں جلائے گئے اور ایک دن میںہزاروں شہریوں کا قتل کیا گیا، یہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری نسل کشی ہے۔بلوچوں کی نسل کشی کی جڑیں پاکستان کے قیام سےپیوست ہیں ۔ ریاست پاکستان ہمیں ہماری ثقافت، زبان اور ہماری شناخت سے ہمیں محروم کرنا چاہتی ہے۔

انھوں نے کہا پاکستانی میڈیا اور دیگر ادارے بلوچستان میں بلوچ نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔

بی این ایم کے چیئرمین نے کہا پاکستان پہلے بلوچستان، گلگت بلتستان ، سندھ اور پشتونوں پر مظالم کے لیے تنہا تھا آج اسے چینکی شکل میں ایک شراکتدار ملا ہے جسے استحصال اور مظالم کا ایک وسیع تجربہ ہے۔چین نے بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کے لیےپاکستان سے ہاتھ ملایا ہے کیونکہ اس کا مقصد گلگت بلتستان ، سندھ اور بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار ہے۔

انھوں نے کہا تبت سے لے کر مشرقی ترکمنستان  اور ہانگ کانگ سے لے کر تائیوان تک چین کو استحصال اور نسل کشی کا وسیعتجربہ ہے۔چین ایک ایسا ملک ہے جسے اپنے ملک میں بھی انسانیت اور انسانی حقوق کی قدر نہیں۔

بیس لاکھ سے زیادہ اویغور مسلمان اس کے کنسٹریشن کمیپ میں تشدد سہہ رہے ہیں اور انھیں بلوچوں کی طرح نسل کشی کاسامنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہماری قومی جدوجہد پاکستانی قبضے سے آزادی کے لیے ہے۔ہمیں یقین ہے کہ ہماری جہدوجہد خطے کے محکوماقوام کے لیے ایک متاثر کن تحریک ہے۔یہ اس لیے نہیں کہ ہم دنیا میں دہشت گردی کے مرکز پاکستان کے خلاف لڑ رہے ہیں بلکہ اسکے ساتھ ہم تہذیبی تنوع، قومی اختیار اور اقلیتی اقوام کے نسلی حقوق کے لیے بھی لڑ رہے ہیں۔

چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہم بالواسطہ پاکستان کے اتحادی چائنا سے نبرد آزما ہیں اور اس کی گوادر میں موجودگی کے خلافلڑ رہے ہیں۔ہماری کامیابی ان تمام محکوم اقوام کی کامیابی ہوگی جو کہ چین کے استحصالی منصوبوں کا شکار ہیں۔ہمارے وسائلکی لوٹ مار کے ساتھ چین کی آبنائے ہرمز پر موجودگی خطے اور دنیا کے عسکری اور معاشی مفادات پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔

انھوں نے  شرکاء کی طرف سے ایک سوال کے جواب میں کہا بی این ایم تمام بلوچ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتیہے۔ ہم نے اس پروگرام کے لیے ایف بی ایم اور بی آر پی کے مرکزی رہنماؤں کو بھی دعوت نامے دیے تھے اور ہم آئندہ بھی اشتراکعمل اور یکجہتی کی کوشش جاری رکھیں گے۔

انھوں نے کہا وہ دیگر بلوچ قوم دوست جماعتوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔

نامور مصنف ڈاکٹرعائشہ صدیقہ نے کہا ہمیں جبری گمشدگی کی تعریف کو وسیع کرتے ہوئے اس کے وجوہات اور مقاصد کو تلاشکرنا ہوگا اور اس کی مختلف شکلوں کی نشاندہی کرنی ہے۔پاکستانی ریاستی عناصر لوگوں کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے جبریگمشدگیاں کر رہے ہیں۔ہمیں متحد ہوکر جبری گمشدگیوں کے تمام شکلوں کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔

انھوں نے کہا عدالت سے ضمانت حاصل کرنے کے باوجو د علی وزیر جیل میں ہیں یہ  طاقت کا مجرمانہ استعمال ہے۔لوگوں کو یہ حقحاصل ہے کہ وہ اپنی زندگی اور اپنی سرزمین کے لیے  منصوبے اور خواہش رکھیں ریاست کو انھیں روکنے کا حق نہیں۔

عائشہ صدیقہ نے کہا بلوچوں کو پاکستانی بندوبست کے دیگر اقوام سے جڑ کر انھیں اپنی تحریک اور اپنے مسائل سے آگاہ کرناچاہیے۔ بلوچ ایک کمرے میں بیٹھ کر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے انھیں دیگر لاکھوں لوگوں سے جڑ کر ان کی حمایت حاصلکرنی ہوگی۔میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے پاکستان میں لوگوں کو پتا نہیں کہ بلوچستان میں کیا مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا نوجوان نسل کے ایسے ہزاروں افراد ہیں جنھیں بلوچوں کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔

تاریخ نویس ڈاکٹر نصیر دشتی نے کہا پاکستان آئندہ ایک دو سال میں دیوالیہ ہوجائے گا اور جیسے ہی پاکستان دیوالیہ ہوگا اس میںتوڑ پھوڑ کے عمل میں تیزی آئے گی اور اب دنیا کے دیگر ممالک اس کی مزید مالی مدد نہیں کریں گے۔پاکستان کا ٹوٹنا ایک سچائیہے جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا لیکن ہمیں یہ جائزہ لینا ہوگا کہ کیا پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد ہم آزاد ہوں گے یا ماضی کی طرحتب بھی ہماری قسمت نہیں بدلے گی۔

انھوں نے کہا ان حالات میں بلوچ لیڈرشپ اور سیاسی کیڈر کا کردار انتہائی اہم ہے۔اگر یہاں بھی ہم نے اپنے بزرگوں کی طرح غلطیکی جو یہ سمجھتے تھے کہ برطانیہ انھیں پاکستان کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار مہیا کرے گا جب کہ سچائی یہ تھی کہ پاکستانبرطانیہ کے شہہ پر بلوچستان پر قبضے کی کوشش کر رہا تھا۔ اپنے اپنی غلطیاں دہرائی تو ہم ان حالات میں بھی اپنی آزادی سےمحروم ہوسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا مسلم لیگ انگریز سرکار کے افسران نے تشکیل دی تھی اور یہ تاریخ کا انوکھا ملک ہے کہ جس کے نام نہاد جنگ آزادیکے دوران کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کے حالات تبدیل ہوچکے تھے کالونیل طاقتیں اپنی کالونیاںچھوڑنے پر مجبور ہوئے یہاں سب سے بڑی کالونیل طاقت برطانیہ تھی جس نے اپنی کالونیوں کو اس طرح آزاد کیا کہ آج تک یہاں کےحالات میں سدھار پیدا نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر نصیر نے کہا سویت یونین کا عالمی طاقت ہونا، خلیجی ممالک میں تیل کی دریافت اور چین میں کمیونسٹ قوتوں کی طاقتور ہونےکے خوف سے برطانیہ نے بلوچستان کے ساتھ کیے گئے معاہدہ جاریہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان کی آزادی چھین کر اسےپاکستان کے قبضے میں دیا۔

دوسرے سیشن میں ہیومین رائٹس کمیشن بلوچستان کی چیئرپرسن بی بی گل بھی آنلائن شریک ہوئیں لیکن تکنیکی وجوہات کی بناء پراپنی تقریر مکمل نہ کرسکیں۔

انھوں نے بیرون ملک مقیم بلوچوں پر زور دیا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے عالمی اداروںکو بلوچستان کے حالات کے بارے میں بروقت آگاہ کرتے رہیں۔

بی این ایم برلن کانفرنس 2022  دو حصوں پر مشتمل تھی پہلے حصے میں  بلوچستان اور خطے کے محکوم اقوام کے موضوع پرسندھی دانشور اور ورلڈ سندھی کانگریس کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر لکھو لوہانہ، ورلڈ اویغور کانگریس کے صدر دولکون عیسی، کردسیاسی رہنماء ماکو قوگیری اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے جونیئرجوائنٹ سیکریٹری حسن دوست بلوچ نے خطاب کیا تھا۔

کانفرنس کی نظامت کے فرائض بی این ایم جرمنی چیپٹر کی نائب صدر سمل بلوچ نے انجام دی۔