جوڈیشل کمیشن و دیگر مطالبات پر حکومت سنجیدہ نہیں – لواحقین

180

زیارت آپریشن و جعلی مقابلے کیخلاف بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی دھرنا گورنر ہاوس بلوچستان کے سامنے جاری ہے۔ لواحقین نے سمی دین بلوچ کی رہنمائی میں پریس کانفرنس کی۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت اس خطے میں تمام مکتبہ فکر، تمام سیاسی جماعتوں سمیت ریاستی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچستان کے اندر سب سے اہم اور حساس مسئلہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے جب تک لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کیا جائے گا تب تک بلوچستان کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا اسی لیے ہم لاپتہ افراد کے لواحقین پچھلے 26 دنوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے کوئٹہ کے اس اہم مقام پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران ہمیں سب سے زیادہ گلہ اور شکوہ اپنے صحافیوں سے ہے کیونکہ اس دوران صحافیوں کا کوئی خاطر خواہ رول نظر نہیں آ رہا ہے ہم اب بھی یہی امید کرتے ہی‍ں کہ آپ صحافی حضرات ریاست کے چوتھے ستون میڈیا کے ذریعے ہماری آواز مہذب دنیا اور حکام بالا تک پہنچائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دھرنا پچھلے مہینے 21 جولائی سے شروع کیا گیا جو کہ تاحال جاری ہے اس حوالے سے ہمارے تین مطالبات تھے پہلا زیارت واقعہ پر ایک جوڈیشل انکوائری تشکیل دیا جائے، دوسرا لاپتہ افراد کے لواحقین کو یہ یقین دہانی کروائی جائے کہ ان کے پیارے اس طرح کے جعلی مقابلے میں مارے نہیں جائیں گے، تیسرا لاپتہ افراد کے بازیابی کو ممکن بنایا جا سکے۔ پہلا مطالبہ زیارت واقعہ پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ اس پر ابھی تک آگے کام نہیں ہوا ہے نہ ہی متاثرہ فیملی سے کوئی رابطہ ہوا ہے اور نہ ہی لاشوں کی ڈی این اے اور پوسٹ مارٹم وغیرہ کی بات کی گئی ہے جو کہ ہم سمجھتے عدالت عالیہ کی اور جوڈیشل کمیشن میں منتخب معزز جج کی غیر سنجیدگی کو واضح کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے باقی دونو‍ں مطالبات پر ابھی تک کوئی بھی پیش رفت نظر نہیں آ رہی، پچھلے دنوں صوبائی وزیر زمرک خان اچکزئی ان کے ساتھ ایم پی اے شکیلہ نوید دہوار بھی تھی، انہوں نے آکر ہمارے جو باتیں اور مطالبات تھے وہ لے کر چلے گئے۔ اس وقت وہ تین مرتبہ ہمارے پاس آ چکے ہیں ان کی جانب سے ہمیں کہا گیا ہے کہ پہلے آپ لواحقین اپنا دھرنا ختم کریں تو ہم آپ کے مطالبات آگے لے جائیں گے، جب تک دھرنا ختم نہیں ہوگا تب تک ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن لواحقین کی جانب سے ہمارا موقف یہی ہے کہ ابھی تک ہمارے مطالبات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوا ہے لیکن آپ لواحقین سے دھرنا ختم کرنے کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں جو کہ لواحقین کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے جب تک لواحقین کو سو فیصد یقین دہانی نہیں کروائی جائے گی تب تک ہم سب بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنا دھرنا ختم نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ہم نے کوئٹہ کے مخلتف جگہوں سے ریلیاں نکال چکے ہیں، پمفلٹ بھی کر رہے ہیں اور وال چاکنگ بھی کیے ہیں تاکہ عوام الناس کے اندر مختلف طریقے سے اس مسئلے پر موبلائزیشن کیا جا سکے، اسی تسلسل کو آگے لے جاتے ہوئے 16 اگست کو کوئٹہ کے مختلف مقامات پر علامتی کیمپ لگا کر آگاہی پھیلائیں گے اور اسی طرح 17 اگست کو کلی ہدہ سے ایک بہت بڑی ریلی نکالی جائے گی۔

انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی توسط سے حکام بالا اور حکومت وقت کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب تک ہمارے مطالبات پر عمل در آمد نہیں کیا جائے گا تب تک ہم اپنے احتجاج میں مختلف طریقے سے مزید شدت لائیں گے اگر ہمارے کسی بھی لواحقین کو کچھ بھی ہوگیا اس کی ذمہ داری ریاست اور اس کے حکمران ہونگے۔