ایک بیٹی کا گمشدہ باپ کو خط ۔ محمد خان داؤد

183

ایک بیٹی کا گمشدہ باپ کو خط

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

بابااس ریاست نے مجھے درد کے نسخوں میں لپیٹ دیا ہے
پیارے بابا جان!
میں اس اسپتال،اس اسپتال کے اسی کمرے میں بھی گئی تھی جہاں آپ اپنی آخری ڈیوٹی ختم کر کے مجھ سے ملنے کا وعدہ کر گئے تھے۔اس لیے کہ مجھے میری سوچوں نے مجبور کر دیا کہ میں اس کمرے کو آنکھوں سے دیکھوں اس کرسی کو ہاتھوں سے چھوؤں،اس ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر روؤں،اس کمرے کی اسی کھڑکی سے باہر جھانکوں جہاں سے آپ دیکھتے تھے۔ اسی رف پیڈ پر آپ کے لکھے نسخے دیکھوں با با میں نے بہت کچھ دیکھا اور میرے دل نے بہت کچھ جھیلا اور میری آنکھوں نے بہت کچھ رویا۔

بابا اب میں آپ کو اپنے احساسات کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں،
سب سے پہلے اور سب سے اہم کہ میں اپنے درد اوراپنی نا امیدی پر ضبط نہیں رکھ پائی، وہ سب میرے اندر میں موجود ہیں۔میں اکیلے درد کو جھیل رہی ہوں، پر میں اپنے آپ کو اکیلا بھی محسوس نہیں کررہی۔اس وقت مجھے یہ احساس ہو چکا ہے کہ تم یہاں میرے ساتھ موجود ہو۔ میں اس وقت اپنے آپ کو زیادہ بے چین محسوس کرتی ہوں جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں آپ کو دیکھ نہیں سکتی۔ آپ کو چھو نہیں سکتی۔آپ کے گلے نہیں لگ سکتی۔ یا آپ کے ساتھ ہنس نہیں سکتی،رو نہیں سکتی،پر بابا رو تو سکتی ہوں تمہارے بغیر بھی!
پر مجھے دو خوشی نماں دکھ ہیں۔کہ آپ میرے ہیں،آپ میرے ساتھ نہیں
پر بابا میں آپ کو محسوس کر سکتی ہوں
ہواؤں میں،بارشوں میں،بارش کے بعد مٹی کی خوشبو میں۔کھلتے،مٹتے رنگوں میں،
بابا۔۔۔بابا۔۔۔بابا۔۔۔۔آنسوؤں میں آہوں میں سسکیوں میں۔۔۔۔
بابا آپ تو میرے ساتھ ہیں
بابا کل مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے مجھے آپ کو دیکھنے کا موقعہ مل رہا ہو
دل دھڑک رہا تھا،اور آنکھیں اشک بار تھیں،پر دل رُک گیا اور آنکھیں اشک بار ہی رہیں
بابا کل کا پورا دن اسی لذت میں گزرا اور بابا میں اس لذت کو الفاظوں میں بیان نہیں کر سکتی
اداس ہو سکتی ہوں،خاموش ہو سکتی ہوں،رو سکتی ہوں،بابا میں رو رہی ہوں!!!!
بابا دن کے ڈھلنے تک کوئی ایسا پل نہ تھا جس میں یہ لذت بھرا احساس نہ ہو کہ ابھی آپ آواز دیں گی
“سمیل جان!“
اور میں پیچھے مُڑ کر دیکھوں گی تو آپ مسکرا رہے ہوں گے اور میں دوڑ کر تم سے لپٹ جاؤں گی
بابا وہ لذت لفظوں میں بیان نہیں ہو پا رہی،دن،سمیل جان،وہ لذت سب میرے ہاتھوں سے ریت کے ذروں کی ماند پسل گئے بابا دن ڈھل گیا رات چھا گئی نہ تم آئے نہ ایسی تمہا ری ایسی آواز کہ
”سمیل جان!“
بابا پھر بھی دن بھر کانوں میں ایسی شنا سا آواز گونجتی رہی
بابا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں بھی اس درد کو سمجھ گئی ہوں جسے میں جھیل رہی ہوں۔جس درد کی کیفیت مجھ تک پہنچی ہے بابا اس درد نے میرے روح کو زخمی کیا ہے۔میری سوچوں کو منتشر کیا ہے اور مجھے مسافر بنا دیا ہے۔بابا ان دردوں نے مجھے کہاں لا کھڑا کیا ہے،پر رات بھر مجھ پر بس یہی کیفیت طاری رہی کہ کوئی تو مجھے شناسا ملے جس سے میں یہ پوچھ پاؤں کہ
”میرا بابا ٹھیک تو ہے نہ؟!“
بابامیری روح کہتی ہے تم ٹھیک ہو
بابا میرا دل کہتا ہے تم ٹھیک نہیں ہو
بابا میں کس کی مانو؟
روح کی،دل کی؟
روح جو میرا بھی اداس ہے مر چکا ہے،دل جو میرا بھی درداں دا مارا ہے
بابا میں کس کی مانو؟
روح کی،دل کی؟
بابا تم جہاں بھی ہو میں تمہیں یاد کر رہی ہوں،میں محسوس کر سکتی ہوں کہ تم بھی مجھے یاد کر رہے ہو،بابا میں تم سے کب مل پاؤں گی؟بابا تم مجھ سے کب مل پاؤں گے؟
بابا میں تمہاری لاڈلی تھی۔بابا ان دردوں نے مجھے مسافر بنا دیا ہے۔بابا تمہیں تلاشتے تلاشتے میرے پیروں میں چھالے پڑ گئے،بابا میں چل نہیں سکتی تھی اب تو سیکڑوں کلو میٹر چل چکی ہوں۔بابا میں بات نہیں کر سکتی تھی بابا اب تو میں کیا کچھ کہہ جا تی ہوں حیران ہوں؟!بابا میں تو اپنا اسکول کا سبق تک نہیں لکھ سکتی تھی بابا اب تو درد کے قصے لکھتی ہوں۔
بابا زندگی بھی اوراق گزشتہ کی طرح منتشر ہو چکی ہے
کوئی پنہ کہاں پڑا ہوا ہے کوئی کہاں
کوئی سبق کہاں ہے کوئی کہاں
بابا میں پھر بھی زندگی کے اوراقوں کو جمع کرتی ہوں اور ”پیا ملن کی آس!“ پر زندہ ہوں
بابا اب زندگی میں کچھ بھی نہیں
اسی لیے میں اس اسپتال گئی،اس کمرے گئی اور اس ٹیبل کو چھو کر محسوس کیا جس ٹیبل پر آپ نے درد کا نسخہ لکھا،اس کھڑکی سے جھانکا جہاں سے آپ دیکھا کرتے تھے،بابا یقین جانیں کچھ نہیں بدلا،وہی سورج،وہی روشنی،وہی ہوا،اور اس کمرے کے در پر آج بھی وہی نام پٹی جس پر بڑے بڑے حروفوں میں لکھا ہوا ہے”ڈاکٹر دین محمد بلوچ“
بابا پھر کیا بدلا ہے؟
درد بھی نہیں بدلے
داروں میں نہیں بدلے
آہیں بھی نہیں بدلیں
سسکیاں بھی نہیں بدلیں
بابا پھر بھی کچھ تو ضرور بدلا ہے
بابا کیا لوگوں کے دل بدل گئے ہیں جو مجھے نہیں پہنچانتے؟
اور ہاں بابا میں نے اس کھڑکی سے جھانکا تو ایک طوطا اُڑے جا رہے تھا وہ ضرور بدلا ہے ہو سکتا ہے کہ جب آپ نے اس کھڑکی سے جھانکا ہو تب وہ اتنا بڑا نہ ہو کہ خود اپنے پروں سے اُڑ سکتا ہو اور یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس دردوں بھری دنیا میں آیا ہی نہ ہو
بابا کچھ تو ضرور بدلا ہے
بابااس ریاست نے مجھے درد کے نسخوں میں لپیٹ دیا
جن دردوں کا درمان کہیں نہیں
نہ سفر میں
نہ ہجر میں
نہ تحریر میں
نہ تقریر میں!
بابا پھر بھی ایک لذت بھرا احساس ہے کہ تم مل پاؤ گے اور میں تمہیں گلے مل کر بہت روؤں گی بابا اسی
احساس نے مجھے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے
ارے ہاں بابا!ضروری بات تو رہ گئی
آپ کو یاد ہے کسی بات پر آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور وہ آنسو آپ کی آنکھوں سے ٹپک پڑے تھے تو میں نے آپ سے کہا تھا
”بابا!اتنے بڑے ہوکر روتے ہو؟“
بابا!اب میری آنکھوں سے اشک رُکتے ہی نہیں
بابا!کیا میں اب بڑی ہو گئی ہوں؟
آپ کی مسافر بیٹی
سمیل جان!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں