عظمیٰ گودی کے نام خط ۔ علی بلوچ

520

عظمیٰ گودی کے نام خط

تحریر: علی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عظمیٰ گودی ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ آپ اس وقت ایک کرب سے گزر رہی ہونگے، چاروں اطراف سے درد کے گھیرے میں ہونگے، آپکے آنسو رواں ہونگے، درد سے بھری چیخ، ہر گھڑی ظہیر کو یاد کر رہے ہونگے اور ظہیر جان سے مخاطب ہونگے۔

عظمیٰ گودی ظہیر جان کو جو کم ظرف دشمن جبری لاپتہ اور پھر اذیت دے کر شہید کرچکا ہے، یہ پہلا واقع نہیں ہے اور ظہیر جان اس دشمن کے ہاتھوں شہید ہونے والے پہلے اور آخری شہید نہیں ہیں، بلکہ یہ دشمن اپنے جبری قبضے کے پہلے دن سے بلوچستان میں بلوچوں کا خون بہاتا آ رہا ہے۔ اس دشمن کے ہاتھوں ہزاروں ظہیر جان شہید ہوئے ہیں۔ ہزاروں ظہیر جان زندانوں میں بند اذیت سہہ رہے ہیں۔ اور اس دشمن کے ہاتھوں آج ہر گلی کوچہ، میدان اور سڑک خونی منظر پیش کر رہا ہے، ہر قصبہ اور گھر خون سے لت پت ہے۔

عظمیٰ گودی میں آپ کا درد شدت سے صرف اس لیے محسوس کر رہا ہو، کیونکہ میں خود اس مرحلے سے گزر چُکا ہوں، انہی دشمنوں کے ہاتھوں میرے والد کی مسخ شدہ لاش ہمیں تحفے میں ملی، ہمارے ماموں اور چاچا کی بھی مسخ شدہ لاش ہمیں تحفے میں ملی، دو اور رشتہ داروں کی لاش بھی ہمیں انہی جابروں کے ہاتھوں تحفے میں ملی، اور ہمارے رشتہ دار اور ہمسایہ لوگ آج تک زندانوں میں بند اذیتیں کاٹ رہے ہیں۔

عظمیٰ بہن آپ پہلی بہن نہیں ہیں، جو اس دشمن کی ظلم کا شکار بنی ہے، یہ ظالم آپ کی آنسوؤں سے کھیل کر، آپ کو ہر سڑک اور کوچوں میں چیخ و پکار پر مجبور کر کے، ماتم کروا کر اور ظہیر جان کو آپ سے دور رکھ کر ہر گھڑی آپکو مارتا اور زندہ کرتا رہا۔ آپ کو کتنا ستایا اور اذیت دی۔ بلکہ اس ظالم کے ہاتھوں ہر ادوار میں ہماری مائیں اور بہنیں ظلمتوں کا شکار بنی ہیں۔ انہی ظالموں نے فرزانہ مجید کو کتنا رُلایا، انہی ظالموں نے فرزانہ مجید کو زاکر مجید کے لیے چیخ و پکار کرنے پر کتنا مجبور کیا۔ ماہ رنگ کو درد و آنسوؤں کے ساتھ بڑا ہونے پر مجبور کیا، سائرہ کو درد سے گھیر لیا، اور اسی ظالم کے ہاتھوں راشد اور زاکر کی ماؤں کو کتنا انتظار کروایا۔

عظمیٰ گودی میں یہی سمجھتا ہو آپ دوسرے شہداء کی بہنوں کی طرح ایک بہت خوش نصیب بہن ہو کہ آپ کو شہید ظہیر جان جیسا ایک بھائی نصیب ہوا۔ آپ بھی ایک شہید کی وارث بنی، آپ کی بھی رشتہ داری اس دھرتی اور اس دھرتی کے دیگر شہیدوں سے شدت سے جُڑ گیا۔

عظمیٰ گودی آپ کبھی بھی یہ پرواہ نہیں کرنا کہ ظہیر جان کیوں شہید ہوا، کیوں ہم سے اتنا دور چلا گیا، کیوں ہم سے جدا ہوا، بلکہ فخر سے اپنا سر اونچا کرنا کہ شہید ظہیر جان اس دھرتی کی عظمت پر فدا ہوا، اس دھرتی کے شہیدوں سے کیے گئے اپنے وعدے کو پورا کیا، اور اپنی دھرتی کا قرض ادا کیا۔ اور شاید آج ظہیر جان بے حد خوش ہوگا کے میں اپنی سر زمین پر فدا ہوا، اور میرا جو خواہش تھا وہ پورا ہوا۔

عظمیٰ گودی مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب دو سال قبل میں ایک شہید کی ماں سے ملنے گیا، اور وہ ماں اپنے شہید بیٹے کے قصے رو رو کر مگر فخر سے سنا رہی تھی کہ میرا پیارا اور لائق بیٹا یہی تھا اور میرا لاڈلا تھا، آج مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا خود کو اس دھرتی پے قربان کر گیا، وہ بول رہی تھی کہ مجھے یہ دھرتی اتنی پیاری ہے کہ اگر میں اپنی کوکھ سے اپنے بیٹے جیسے اور ہزار بیٹے جنم دوں تو ان سب کو بھی اس دھرتی پر قربان کر دوں۔ میری بہن عظمیٰ، اس دھرتی پے ہزاروں ظہیر جان جیسے بھائی شہید ہونے کو تیار ہیں، آپ انکی ہمت بنے اور انہیں وہ حوصلہ دیں جو ایک بہن اپنے بھائی کو دیتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں