بلوچستان! ۔ محمد خان داؤد

161

بلوچستان!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

روشنائی سے لکھنے والا خونِ دل سے لکھنے والے کی برابری نہیں کر سکتا!
اور وہ خاموشی جو ناکامی اور اداسی کی ترجمانی ہے
اس خاموشی کی ہم مرتبہ نہیں ہو سکتی جو رنج و غم کی تخلیق ہے
میں نے خاموشی اختیار کر لی اور اس لیے کہ دنیا کے کان کمزور کی آہ و زاری سے ہٹ کر دوزخ کی چیخ و پکار پر لگ گئے۔ دانائی اسی میں ہے کہ جب ضمیر وجود میں چھپی ہوئی قوتیں وہ قوتیں جن کی زبانیں توپیں ہیں اور الفاظ بم کے گولے برسرتکلم ہوں تو کمزور خاموش ہو جائے!
ہم آج کل اس زمانہ میں ہیں جس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ اب کے پیش رو زمانہ کے بڑے سے بڑے حصہ سے بڑا ہے
اور وہ کم بخت سامراج ہے!
بڑے سے بڑی شکل میں اور چھوٹی سی چھوٹی شکل میں
اس لیے وہ امور جن میں ہما رے افکار،میلانات اور جذبات اُلجھے رہتے ہیں ایک گوشہ میں سمٹ کر رہ گئے ہیں
اور وہ مشکلات و مسائل جو ہمارے عقیدوں اور اصولوں سے کھیلتے تھے نسیان و فراموشی کے پردہ میں چھپ گئے ہیں۔
رہے وہ لطیف خیالات اور دلکش سائے جو ہمارے محسوسات کے ناٹک میں رقصاں تھے۔سو وہ کہر کی طرح فضا میں منتشر ہوگئے ہیں۔
ان کی جگہ ان قہرمانی قوتوں نے لے لی ہے جو آندھیوں کی طرح چلتی سمندروں کی طرح اٹھلاتی اور کوہ آتش فشاں کی طرح سانس لیتی ہیں۔لیکن ان قہرمانی قوتوں کا مقابلہ ختم ہوجانے کے بعد دنیا کس طرف جائے گی؟
کیا کسان اپنے کھیتوں میں واپس آکر کھیتی باڑی کرے گا جہاں موت نے مقتولوں کی کھوپڑیاں بوئی ہیں؟
کیا چرواہاں اپنے گلے کو اس چراگاہ میں چرائے گا جس کی زمین پر گولیوں نے جگہ جگہ شگاف ڈال دئیے ہیں؟
کیا وہ اپنے ریوڑ کو ان چشموں کے کنارے لے جائیگا جن کے پانیوں میں تازہ تازہ خون شامل ہے
کیا عابد اس ہیکل میں نماز ِ عبودیت ادا کرے گا جہاں شیطان ناچ رہے ہیں؟
کیا شاعر اپنا قصیدہ ان ستاروں کے سامنے پڑھے گا جنہیں دھوئیں نے چھپا رکھا ہے؟
کیا موسیقار اس رات میں اپنے گیت سنائے گا جس کی خاموشی ہولناکیوں سے گلے مل رہی ہو؟
کیا عاشق اپنی محبوبہ سے ملے گا اور وہ دونوں ایک دوسرے کو پیار کریں گے جہاں دشمن کے مقابلہ پر آکر معرکہ آرا ہوچکا ہے؟
کیا بھار دنیا میں پھر آئے گی اور اس بلوچستان کے زخمی جسم پر اپنی سبز چادر ڈالیگی؟
کاش میں جانتا کہ کیا بھار اس دنیا میں پھر آئے گی؟
وہ کونسی قہرمانی قوت ہے جو ان ٹیلوں اور پہاڑوں پر ہاتھ رکھے گی جنہوں نے ہمیں مرد اور عورت بنا کر اس دنیا میں نمودار کیا!
کیا بلوچستان اسی طرح بھیڑیوں کے غاروں اور خنزیروں کی باڑوں میں پڑا رہے گا یا ہم آندھیوں کے ساتھ شیر کی کچھار اور عقاب کے بلند مسکن کی طرف جائیں گے؟
کیا بلوچستانکے پہاڑ کی چوٹیوں پر صبح کا ستا رہ طلوع ہوگا؟
جب کبھی مجھے تنہائی نصیب ہو تی ہے تو میں اپنے نفس سے یہ سوالات کرتا ہوں۔مگر نفس قضاء وقدر کی طرح دیکھتا سب کچھ ہے بولتا نہیں۔
چلتا ضرور ہے پلٹ کر نہیں دیکھتا اس کی گاہیں روشن ہیں اور قدم گرم رفتار لیکن اس کی زبان جکڑی ہوئی ہے۔
لوگو!تم سے کون ہے جو شب و روز اپنے نفس سے یہ سوال نہیں کرتا کہ جب قہرمانی قوتیں اپنے چہروں پر بیواؤں اور یتیموں کے آنسوؤں کی نقاب ڈال لیں گی تو اس وقت دنیا والوں کا کیا حشر ہوگا؟
میں نشو و ارتقا کی سنت کا قائل ہوں اور یہ میرا نظریہ ہے کہ یہ سنت وجودی ظاہری کے ساتھ وجود معنوی پر بھی اثر انداز ہو تی ہے۔چنانچہ جب مخلوق مناسب سے منا سب ترقی منزل میں آتی ہے تو مذہب اور حکومت بھی خوب سے خوب تر ہو جا تے ہیں اور اس بنیاد پر اس سنت کی رجعت بھی ظاہری ہے اور انحطاط بھی سطعی!
سنت ارتقا کی بہت سی راہیں ہیں جو بہ اعتبار فرع ایک دو سرے سے مختلف سہی لیکن بہ اعتبار اصل ایک ہیں۔اس کا ظاہری پہلو بہت بے رحم اور تاریک ہے جس سے محدود عقلیں انکار کرتی ہیں اور کمزور دل بغاوت!
لیکن اس کا باطنی پہلو عادل اور روشن ہے۔اس حق سے چمٹا ہوا ہے جو افراد کے حقوق سے بلند ہے اس غرض پر نگاہیں جمائے ہوئے ہے جو جماعت کے اغراض سے اعلیٰ ہے۔
او آواز پر کان لگائے ہوئے ہے جو غمزدوں کی آہوں اور غمگینوں کی سبکیوں کو اپنے خوف اور شیرنی میں جذب کرلیتی ہے۔میرے گرد وپیش ہر جگہ وہ لوگ ہیں جو دور سے جنگ آزما قہرمانی قوتوں کی پر چھائیوں کی پرچھائیاں دیکھتے ہیں۔سوتے میں ان کے نعرہ ہائے مسرت صدائے باز گشت سنتے ہیں اور چلا تے ہیں۔
،،دنیا اپنی بتدائی فطرت کی طرف لوٹ گئی۔قوموں نے اپنے علم و فن کی مدد سے جو کچھ بنایا تھا اسے وحشی انسان کی حرص افادیت نے ڈھا دیا
چنانچہ آج ہمارا وہی حال ہے جو غاروں می رہنے والے انسانوں کا تھا آج اگر ہمیں ان سے کوئی چیز ممتاز کرتی ہے تو وہی آلات جو ہم نے تباہی کے لیے ایجاد کیے یا پھر وہ حکمت و تدبر جسے ہم ہلاکت کے لیے کام میں لا تے ہیں یہ بات وہ لوگ کہتے ہیں جو عالم کے ضمیر کو اپنے ضمیروں کے ترازوں میں تولتے ہیں اور ہستی کی غایت کے تجزیہ کے لیے اس کو تاہ عقل سے کام لیتے ہیں جسے وہ اپنے وجود شخصی کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
گویا آفتاب صرف اس لیے ہے کہ انہیں حرارت پہنچائے اور سمندر صرف اس لیے ہے کہ اس میں اپنے پاؤں دھوئیں زندگی کے سینے سے محسوسات کے پیچھے سے نظام ہستی کی گہرائیوں سے جہاں اسرار وجود پوشیدہ ہیں قہرمانی قوتیں ہوا کی طرح ابھریں بادلوں کی طرح بلند ہوئیں پہاڑوں کی طرح آپس میں مل گئیں اب وہ برسر پیکار ہیں۔ دنیا کی ان مشکلات کو حل کرنے کے لیے جو تباہی و بربا دی کے بغیر کبھی حل نہیں ہو سکتیں۔
لیکن انسان اس کے علوم و فنون اس کی محبت و نفرت اور اس کا صبر و اضطراب اور درد و بے چینی یہ سب وہ آلات ہیں جنہیں قہرمانی قوتیں اس مقصد اعلیٰ کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنا تی ہیں جس تک پہچنا بہت ضرو ری ہے
رہا وہ خون جو بہایا گیا
سو کوثر کی نہر بن کر پھوٹے گا
رہے وہ آنسو جو بکھر گئے
سو خوشبو دار پھول بن کر اُگیں گے
رہیں وہ جانیں جو ضائع ہوگئیں
سو وہ ایک جگہ جمع ہوکر نئی صبح کی شکل میں نئے اُفق سے طلوع ہوں گی
اور اس وقت انسان کو معلوم ہوگا کہ اس نے حق کو ابتلا کے بازار سے خریدا ہے۔وہ سمجھ لے گا کہ حق کی راہ میں خرچ کرنے والا کبھی نقصان نہیں اُٹھاتا!
بلوچستان بھی وہ صحفہ قرطاس ہے جہاں پر شہید اپنی تحریریں روشنائی سے نہیں پر دل کے خون سے لکھ رہے ہیں تو
،،روشنائی سے لکھنے والا خونِ دل سے لکھنے والے کی برابری نہیں کر سکتا!،،
تو وہ دھرتی بھی برابر نہیں ہو سکتی
ایک وہ جو مقتل گاہ تعمیر کرے
اور ایک وہ جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس مقتل گاہ جا پہنچے!
بلوچستان جو حوض کوثر تھا
وہ بلوچستان اب مقتل گاہ بنتا جا رہا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں