احساسِ غلامی ۔ باگی بلوچ

444

احساسِ غلامی

تحریر: باگی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

غلامی کا احساس اس انسان کو ہوتا ہے جو آزادی اور غلامی کے فرقِ مراتب کو جان سکے، لیکن پھر بھی ایک بات ہر باکردار انسان کو بار بار سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ غلامی ہے کیا؟ جب ایک باشعور انسان اپنی قوم پر دشمن کی ناکردہ ظلم جبر اور بلوچ ماں بہنوں کو در در ٹھوکریں کھاتے اور دستہ بستہ اپیل کرتے ہوئے دیکھ کر انسان کے اندر کا انسان خاموش رہنے نہیں دیتا۔

جب کوئی بلوچ کو اٹھایا جاتا ہے تو پریس کلبوں روڑوں جہاں احتجاج ہو ہماری ماں بہنوں کی آہ و فریاد یہی ہے “ہمارے بچوں کو بازیاب کیا جائے اگر ان لوگوں پر کوئی جرم ہو تو اپنے ہی عدالتوں میں پیش کی جائیں”

ہر کسی کا پیارا سالوں سال جبری گُمشدگی کا شکار ہے اور ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں ایک دہائی، زمانہ دراز سے غائب کر دئیے گئے ہیں، کیا ہم اُن لوگوں کے تکالیف کا اندازہ لگا سکتے ہیں کبھی نہیں کیونکہ ایسے سنگین درد و اذیت کو لکھنے یا جملوں میں بیان کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

اگر ریاست کی شکست خوردگی کا ہم اندازہ لگانے کی جسارت کریں تو پچھلے دنوں میں بلوچ مزاحمت کے شان سرمچاروں نے ایک پاکستانی آفیسر کو دوران سرچ آپریشن اٹھایا تو ریاست نے نام نہاد آپریشن کے بہانے اور اپنی ناکامی کو چھپانے کی خاطر جبری گمشدگی کے شکار بلوچوں کو لاکر کسی دریا میں بے دردی سے شہید کیا اور دنیا کو باور کرانا چاہا میں ہارا نہیں۔

ایسا عمل اس بات کی دلیل ہے قابض ریاست پاکستان میں نا آئین ہے نا کہ انسانیت کی خاطر کوئی قانون بلکہ جرائمِ سنگین۔ مملکت خداداد کے بننے سے لیکر آج تک باشعور اور وطن سے محبت کرنے والی بلوچ قوم قابض ریاست کے خلاف مزاحمت کرتا چلا آرہا ہے کیونکہ مزاحمت ہی زندگی ہے۔

لیکن بلوچ قوم نے ہر بار مہذب دنیا کو یہی باور کرایا کہ ہم پر غیر مہذب قوم پنجابی نے بزور طاقت قبضہ کیا ہے اور ہر بار دشمن نے جنگی خلاف ورزیاں کی ہیں، جس طرح بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک نام نہاد ریاست پاکستان کے پیشانی پر وہ سیاہ دبہ ہے جسے کوئی نہیں مٹا سکتا ہے۔

لیکن یہی قوم اور ریاست بنگلہ دیش کی تاریخ کو بلوچ سرزمین پر بلوچ قوم کے خلاف دہرانا چاہ رہا ہے بلکہ کسی حد تک قابض نے اپنی برے عزائم سے اپنی دہشتگرد بے لگام فوجیوں، میجر ، کرنلوں کو اس بدبودار عمل سے پایا ہے، اگر آج بھی مہذب دنیا دیکھتے ہوئے بھی اپنی خاموشی کا روزہ توڑ نہ سکے ، شاہد تاریخ انہیں معاف نہ کرے اور بلوچ قوم اپنی مدد آپ اپنی شناخت کو بچانے کے لئے دشمن کے خلاف آخری دم تک چین سے نہ بیٹھے؟

میں اپنی قوم اور نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں اگر آج ہم دشمن کی دہشت اور تشدد سے خود کو خاموش سمجھیں تاکہ ہم دشمن کے بد نظروں سے بچ سکیں، یہ ہماری سب سے بڑی غلطی ہوگی اگر سرزمین اور قوم نہ بچ سکیں تو ہم کس قیمت سے خود کو محفوظ سمجھیں گے۔

ہمارا دشمن غلیظ القلب ہے ان سے کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے آج جو سرمچار بندوق اٹھاکر میدان جنگ میں سروں کی بازی لگا رہے ہیں شاہد آپ لوگوں کو علم ہو شام کا کھانا نصیب ہو یا نہیں سورج نکلتے ہی دشمن سے آمنے سامنے ہوتے ہیں۔

جو نوجوان اپنی جوانی کو زندان کی نظر کرتے ہیں، کیا ہم جانتے ہیں دشمن کی طرف سے کسی انکاونٹر جیسے عمل سے گزار کر نہ پہچانے والی لاش بن کر ہمارے سامنے آئیں گی، دشمن نے بلوچستان کو ایک مقتل گاہ بنا دیا ہے تاکہ بلوچ آزادی کی جنگ کو آگے لے جانے میں ہزار بار سوچے اور پھر بھی خوفزدہ ہو جائے لیکن تاریخ گواہ ہے جن قوموں نے اتحاد و اتفاق کی طاقت کو سمجھا ہے انہیں کسی قسم کی طاقت دیر تک غلام نہیں بنا پایا ، اور آج بلوچ قوم اور قومی رہنماوں کو اتحاد و اتفاق کی طاقت کو سمجھنا ہوگا کیونکہ زندہ قومیں دیر تک غلام نہیں رہ سکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں