لواحقین کی شرکت کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا – سمی دین

632

لاپتہ طالب علموں کی بازیابی سے اطمینان ہوا کہ کہ تشدد، لاٹھی چارج و گرفتاریاں ضائع نہیں ہوئیں، لاپتہ افراد کے لواحقین کو غور کرنا ہوگا کہ ان کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کیا۔

سمی دین بلوچ نے لکھا کہ دودا اور گمشاد کی بازیابی کا سن کر اطمینان ہوا کہ ہماری ماؤں، بہنوں و بھائیوں پر کیجانے والی تشدد، لاٹھی چارج اور گرفتاریاں ضائع نہیں ہوئیں۔

انہوں لاپتہ طلباء کے لواحقین کی احتجاج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گمشدہ افراد کے لواحقین کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ کس طرح اپنے پیاروں کی بازیابی کی جنگ لڑی جائے کیونکہ جب تک لواحقین ساتھ نہیں ہونگے تب تک کوئی کچھ نہیں کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ دونوں طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف اتوار کے روز بڑی  تعداد میں لوگوں نے کراچی پریس کلب سے سندھ اسمبلی تک مارچ کرنے کی کوشش کی تاہم سندھ پولیس نے مظاہرین کو سندھ اسمبلی کے قریب فوارہ چوک کے مقام روک دیا۔

جہاں مظاہرین نے دھرنا دیا بعدازاں مظاہرین تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے سندھ اسمبلی کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

گذشتہ روز مظاہرین اور سی ٹی ڈی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں پولیس کے اعلیٰ عہدہ دار نہیں آئے جس کے بعد مظاہرین نے وزیراعلیٰ ہاوس کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی، پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا تاہم مظاہرین نے وزیراعلیٰ ہاوس جانے کے بجائے سندھ اسمبلی کی جانب مارچ شروع کردیا۔ اس کے بعد پولیس نے مظاہرین کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور مظاہرین کو گرفتار کرکے پولیس تھانہ منتقل کردیا۔

مظاہرین پر تشدد کی ویڈیوز سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہوگئی جبکہ 28 کے قریب مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جن میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماوں سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین شامل تھیں، رات گئے مظاہرین کو رہا گیا۔

ایمنٹسی انٹرنیشنل نے پر امن مظاہرین کے خلاف پولیس کی جانب سے طاقت کے بے تحاشا استعمال کی سخت مذمت کی ہے۔

ایمنٹسی انٹرنیشنل کا ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’اپنے پیاروں کے بارے میں جواب طلب کرنے والے خاندانوں کے خلاف پُرتشدد کریک ڈاؤن کرنا جبری گمشدگیوں کے گھناؤنے عمل کے ظلم کو مزید بڑھاتا ہے۔‘

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے پولیس تشدد کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے بلوچ طلباء کو غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھا کر کسی مجاز عدالت میں پیش کرنے کے غائب کر دیا ہے، اور ان کی بازیابی کے لیے طلباء پرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے تو ان کو بغیر جواز مارا پیٹا گیا۔