بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں پرطلباء کی ذمہ داریاں ۔ اقراء بلوچ

511

بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں پرطلباء کی ذمہ داریاں

تحریر: اقراء بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں وہی تاریخی ظلم و بربریت اور بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کا تسلسل شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ جس میں بلوچ طلباء مظالم کا سامنا کر رہے ہیں، اس مسئلے کو خود بلوچ طلباء کے سوا کوئی اور طبقہ بہتر اور شعوری طور پر محسوس نہیں کرسکتا ہے۔

کالونیل تشدد نے بلوچ طلباء کو ذہنی صدمہ اور ذہنی کوفت جیسی صورتحال میں رکھا ہے۔ بلوچ نوجوانوں میں اپنے گھر سے لیکر تعلیمی اداروں تک ایسا کوئی مقام نہیں جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں کیونکہ بلوچ نوجوان ہر جگہ اس کالونیل مائنڈ سیٹ اور پالیسیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ اگر کسی بلوچ نوجوان کا عمر 16 سال ہے تو وہ اپنے گھر میں رہ نہیں سکتا۔ اس کے لیے لازم بن چکا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے گھر سے باہر رہیں اور اپنی سلامتی کے لیے کسی بڑے شہر کی طرف رجوع کریں۔لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بھی بلوچ طلباء کو ان کے “بلوچ شناخت” کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، یونیورسٹی کے اندر انہیں پروفائنگ اور ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اب روزانہ کی بنیاد پر انہیں جبری گمشدگیوں کا بھی سامنا ہے۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ طلباء کو سیاسی نظریات یا سیاسی تنظیموں سے وابستگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف” بلوچ شناخت” کے بنیاد نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ بلوچ قوم کی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو بلوچ طلبہ کی زندگی مختلف نشیب و فراز کا سامنا کر کے گزری ہے۔جہاں پر انکی انتھک محنت و جدوجہد،قربانی اور قومی زمہ داریوں کو مخلصی سے سر انجام دینے سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ جنھوں نے اپنی قومی وجود ،تاریخ ،کلچر ،ادب اور سیاست کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ تاریخ میں جتنی قربانیاں بلوچ طلباء نے دی ہیں اور بہت سے المناک اذیتوں کا سامنا بلوچ طلباء نے کی ہے۔ شاید کسی اور طبقے نے اس طرح کے حالات کا سامنا کیا ہو۔

موجودہ کالونیل ریاست سے پہلے جتنی بھی کالونیل طاقتیں گزرے ہیں ان کا اپنے کالونیوں کے ساتھ ہمیشہ اسی طرح کا رویہ رہا ہے کیونکہ کالونیلزم کا بنیاد ہی جبر و تشدد سے رکھا جاتا ہے۔

بلوچ نوجوانوں کو سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر نشانہ بنانا اپنی جگہ ایک الگ بحث ہے مگر حالیہ دنوں جتنے بھی نوجوان لاپتہ کیے گئے ہیں یا جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں ان میں اکثر ایسے طلباء شامل ہیں جو پاکستان کی سول سروس یعنی بیوروکریسی کے امتحانات کی تیاریوں میں مصروف تھے جبکہ بعض ایسے طلباء شامل ہیں جنہوں نے ایم فل کیا ہوا ہے اور وہ پاکستان کے یونیورسٹیوں میں لیکچرارشپ کی تیاری کر رہے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کیلئے یہ اہم نہیں کہ کونسے طلباء سیاسی ہیں یا کونسے غیر سیاسی ہیں بلکہ وہ بلوچ نوجوانوں کو ان کی قومی شناخت کے بنیاد پر نشانہ بنا رہی ہے۔

کالونیل طاقتوں کیلئے سب سے زیادہ یہ اہم ہے کہ وہ کس طرح اپنے کالونیوں کے اندر خوف و ہراس کو قائم رکھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نوآباد کاروں کا رویہ ہمیشہ بلوچستان کے ساتھ اسی طرح رہا ہے۔ انہی حالیہ 10 دنوں کے اندر کراچی، تربت، پنجاب اور کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں سے درجنوں کی تعداد میں نشانہ بنایا گیا ہے۔

ان حالات کی تناظر میں دو ایسی چیزیں ہیں جن پر بلوچ طلباء کے درمیان بحث کی ضرورت ہے۔ ایک نوآبادیاتی پالیسی ، دوسرا متحدہ جدوجہد۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں پر مسلسل ایک مخصوص بیانیہ کی تشہیر کیا جارہا ہے کہ “جن بلوچوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہ لازماً کسی نہ کسی سرگرمی میں شامل رہے ہیں وگرنہ کسی بے گناہ کو جبری گمشدگی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا”۔

یہ ایک کالونیل بیانیہ ہے جو کہ نوآباد کار اپنی “تشدد” کی دفاع میں استعمال کرتا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ کالونیل طاقتوں نے اپنے تشدد کے دفاع میں ایسے بیانیے استعمال کیے ہیں۔

مگر المیہ یہ ہے کہ کئی مرتبہ ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب کسی طالب علم کو لاپتہ کیا جاتا ہے تو کالونیل بیانے پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کے نزدیک دیگر طلباء اس کے حق میں آواز نہیں اٹھاتے ہیں کہ شاید جبری گمشدگی کے شکار نوجوان نے ریاست کے خلاف کوئی کام کیا ہے۔ مگر دوسرے دن وہ طالب علم خود جبری گمشدگی کا شکار ہوجاتا ہے، تب انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کسی غلام قوم کے فرزند کیلئے شرط یہ نہیں کہ وہ قبضہ گیر کے خلاف کسی سرگرمی میں حصہ لے بلکہ غلام قوم سے تعلق رکھنا ہی اصل جرم ہے۔

کولونیل تشدد اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ ہم بلوچ بطور قوم اس نظام میں غلام ہیں اور یہ کالونیل تشدد اس وقت تک قائم رہے گا جب تک اس نوآبادیاتی نظام کا غلبہ قائم ہے۔ جب تک بلوچستان قبضے میں رہے گا اس وقت تک بلوچ نوجوان جبری گمشدگی اور اس تشدد کا سامنا کرتے رہیں گے چاہے وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں یا نہیں لیں۔

‏‎اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں بلوچ طلباء کو کیا کرنا چاہیے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے بلوچ نوجوانوں کو اس کالونیل بیانیے سے نکلتے ہوئے کالونیلزم اور کالونیل تشدد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

جب ہم کالونیلزم اور کالونیل تشدد کو سمجھنے میں کامیاب ہونگے ۔ تب ہم ہر لاپتہ نوجوان کے درد کو اپنا درد سمجھیں گے اور اپنی باری کا انتظار کرنے سے پہلے ساتھی لاپتہ طالب علم کیلئے آواز اٹھائیں گے۔ اس کے علاوہ موجودہ صورتحال میں دوسری اہم ضرورت نوآباد کار کے مظالم کے خلاف اکھٹا اور متحدہ جدوجہد ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت ہماری صورتحال یہ ہے کہ اپنے دیگر ساتھی طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف صرف اہلخانہ، دوست اور اسی تعلیمی ادارے میں موجود طالب علم احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں ۔ لیکن اب تک ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کالونیل تشدد صرف کسی مخصوص خاندان، علاقہ، پارٹی یا تنظیم تک محدود نہیں بلکہ یہ تشدد قومی بنیاد پر بلوچ عوام کے خلاف ہو رہا ہے۔

ہر بلوچ کالونیل تشدد کا سامنا کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں کالونیل طاقت کے خلاف متحدہ جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ جب کوئی طالب علم خضدار سے لاپتہ کیا جاتا ہے تو تربت کے نوجوان اپنی باری کا انتظار کیے بغیر آواز اٹھائیں۔ متحدہ جدوجہد طاقت کی بنیادی شرط ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو اپنے اس طاقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس متحدہ جدوجہد کی مثال حالیہ پنجگور واقعے سے لیں جہاں ایف سے کے اہلکار ایک طالب علم کو بس سے اتار کر کیمپ منتقل کرتے ہیں تو بس میں موجود بلوچ بغیر کسی تفریق کے اس جبری گمشدگی کے خلاف روڈ بلاک کرکے ایف سی کیمپ کے سامنے دھرنا دیتے ہیں جس کے بعد قابض فوج مجبور ہوکر لاپتہ طالب علم کو بازیاب کر دیتا ہے۔ اس کی دوسری مثال پنجاب یونیورسٹی ہے جہاں طالب علم ساتھی طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف متحد ہوکر یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دیتے ہیں جس کے بعد ریاست مجبور ہوکر طالب علم کو بازیاب کر دیتا ہے۔

‏‎حالانکہ یہ سب آپ کی متحدہ جدوجہد کی طاقت ہے، آپ کو اس متحدہ طاقت کو سمجھتے ہوئے جدوجہد کرنا چاہیے۔ اپنی گمشدگی کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ جہاں سے بھی کوئی بلوچ جبری طور پر گمشدہ کر دیا جائے تو جھالان ، ساروان، کوہ سلیمان اور مکران دیکھے بغیر بلوچ بن کر اس درد اور غم کو اپنا سمجھیں ۔ اپنے گمشدہ لوگوں کیلئے متحد ہوکر جدوجہد کرنا چاہیے۔

ہمیں ان مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکلنا ہوگا، احتجاج کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر آواز اٹھانا ہوگا اور ان مظالم کے خلاف ہر فورم پر لکھنا چاہیے اور اس جبر و تشدد کے خلاف جس طرح بھی ہو سکے کھڑے رہنے کی ضرورت ہے۔ ہماری متحدہ جدوجہد اور طاقت بلوچ سرزمین پر کالونیل تشدد کو ختم کرکے اس قبضے کا خاتمہ کر سکتی ہے اور بلوچ نوجوانوں کو ایک خوشحال زندگی اور آزاد سرزمین عطاء کرسکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں