نام نہاد قوم پرست لاپتہ افراد کے کیس کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ماما قدیر بلوچ

394

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4641 دن ہوگئے، بھوک ہڑتالی کیمپ میں تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین بیٹھے رہے جبکہ آج کیمپ میں نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی، سیاسی اور سماجی کارکنان سعید احمد، غلام دستگیر سمیت دیگر مرد اور خواتین نے آکر اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ وفود سے مخاطب ہو کر کہا کہ حالیہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ سنہ 2000 سے شروع ہوا مگر اب تک کسی ایک بھی کیس میں مجرمان کو سزا نہیں ہوا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جبری گمشدگی افراد کو بازیاب کیا جائے ان کو منصفانہ ٹرائل کا موقع فراہم کیا جائے اور اس میں ملوث قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مجرم ٹھہرایا جائے جب تک اس میں ملوث افراد کو اور اس غیر انسانی عمل کو اس ریاست کا عدالتی نظام کرمنلائز نہیں قرار دے گا تو یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دورانیہ میں بلوچستان، کراچی ملک کے دیگر حصوں سے چار طلباء سمیت متعدد بلوچ جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں، جن میں ایک طالب علم جس کو کوئٹہ سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا وہ منظر عام پر لائے گئے ہیں جو اچھی بات ہے لیکن سوال یہ ہے ان کو جبری لاپتہ کیوں کیا گیا تھا؟ کیا ان کو لاپتہ کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی ممکن ہے؟

انہوں نے کہا کہ نام نہاد قوم پرست جبری لاپتہ افراد کے کیس کو محض ایک سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اس سے آگے کچھ نہیں، اور بلوچستان کا مسئلہ صرف جبری گمشدگیوں کا نہیں بلکہ ایک سیاسی اور قومی مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کیلئے اسلام آباد کبھی مخلص اور مثبت نہیں رہا ہے ہاں اگر اسلام آباد ان انسانی حقوق کی پامالیوں پہ نوٹس لے اور عملی اقدامات اٹھائے تو اعتماد سازی کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے –