غازی یونیورسٹی کے برطرف طلباء بحال

360

غازی یونیورسٹی سے بے دخل تمام آٹھ بلوچ طالبعلموں کو بحال کر دیا گیا ہے۔ طلباء گذشتہ کئی روز سے انتظامیہ کے فیصلے کیخلاف سراپا احتجاج تھے۔

مذکورہ طلباء کو گذشتہ مہینے کے اواخر اس وقت معطل کیا گیا جب انہوں نے انتظامیہ نے ان کے اسٹڈی سرکل میں خلل ڈالی اور ان کے موبائل چھینے گئے۔ طلباء کا الزام ہے کہ انتظامیہ کیجانب سے نہ صرف ان کے سرکل کو سبوتاژ کیا گیا بلکہ ان کے موبائل چھین کر طلباء و طالبات کی تصاویر لی گئی اور انہیں ہراساں کیا گیا۔

مذکورہ طلباء کے حق میں بات کرنے پر پروفیسر رفیق قیصرانی بھی نوکری سے فارغ کردیا۔ جو غازی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔

بساک کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ غازی یونیورسٹی کی جانب سے ایک اسٹڈی سرکل کی پاداش میں تنظیم کے آٹھ ممبران کو ڈسپلن کی خلاف ورزی کو جواز بنا کر یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا تھا جس کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے بھرپور مزاحمت کی گئی اور آج اس آمرانہ فیصلے خلاف تنظیم کی جانب سے بھرپور مزاحمت کے نتیجے میں تمام طالبعلموں کو بحال کردیا گیا۔

تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی شعوری جدوجہد جاری رہے گی اور غازی یونیورسٹی سمیت ڈیرہ غازیخان کے دیگر تعلیمی اداروں میں شعوری سرگرمیوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ طلباء کے حقوق کی جنگ جاری رکھے گی۔

واضح رہے اس سے قبل بھی اسلام آباد، لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کی پروفائلنگ و ہراسانی کے کیسز سامنے آئے ہیں جن کیخلاف بلوچ طلباء کیجانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا۔

اسی طرح نمل یونیورسٹی  اسلام آباد کے طالب علم بیبگر بلوچ کو 27 اپریل کو پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جس کی ویڈیو وائرل ہوگئی بعدازاں سی ٹی ڈی کے الزامات باوجود انہیں رہا کردیا گیا۔

بیبگر امداد کے جبری گمشدگی کیخلاف بھی بلوچ طلباء مسلسل یونیورسٹی کے سامنے احتجاج پر رہیں۔ بعدازاں بیبگر امداد کے رہائی پر احتجاج اختتام پذیر ہوا تاہم بلوچ طلباء کے خدشات تاحال قائم ہیں اور وہ طلباء کی پروفائلنگ و ہراسانی کے بندش کا مطالبہ کررہے ہیں۔