دھکّے مکّے کی انسانیت ۔ یوسف بلوچ

320

دھکّے مکّے کی انسانیت

تحریر:یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ کے لیے دھّکے مکّے کی انسانیت ازل کی شاہراؤں پر صدائیں دیتے ہوئے آ رہی ہے۔ ڈاکٹر دین محمد ہو، راشد حسین ہو یا حمید زہری، دھکے دیتے ہوئے مکے مارتے ہوئے بندوق کی شست سے لاپتہ ہوئے ہیں۔ اذیت گاہوں میں اسی طرزِ عمل پر جی رہے ہیں۔

اب کی بار احتجاج کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر بابا کی تصویر کی بے حرمتی، دھکے دے کر روڈ پر گھسیٹنا،گرفتار کرنا، دوہرے معیار کی کیمسٹری کو بار بار دکھا کر تھانہ لے جانا وغیرہ وغیرہ کا ریکارڈ برابر کیا گیا ہے۔

نہ ہی اس عمل کو ہم نے ہمالیہ بنانا ہے اور نہ ہی جدید دکھا کر بیان کرنا ہے۔ نہ ہی غیرت،روایات کا پرچار دکھا کر یہ کہنا کہ اب ہمارے لیے انصاف تو درکنار روایات کی پامالی بھی ہو رہی ہے۔

نیول کالونی کے قریب حبیبہ پیرجان چار سوالات کے عوض تین دن تک بنا وارنٹ گرفتاری اور ایف آئی آر کے سیاہ کمرے کا مہمان رہے تو اُن کی بیٹی کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی بنے اور خاندان تربت میں اڑتالیس ڈگری کا دھوپ چار دن تک برداشت کرتے رہے۔

لاؤ لشکر ریڈ زون کوئٹہ میں یلغار کے لیے آنسو گیس،پولیس نفری کے ساتھ اس لیے چاک و چوبند تھی کیونکہ وہاں لوگ نورجان بلوچ سمیت لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دھرنا دیے بیٹھے تھے۔

بلوچی روایات میں پلنے والا بلوچ ماں کا بیٹا جب وزیرِ داخلہ کی کرسی سنبھال لیتا ہے تو اُسی رعب و دبدبہ بلوچ بیٹی کو دکھا کر کہتا ہے کہ اب تک تم کیوں لاپتہ نہیں ہوئے۔

اندھیری رات میں ملکناز کی گود میں سوتا ہوا برمش گولیوں کی آواز،ماں کی چیخ سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ملکناز کا مردہ لاش پاتا ہے۔

چند تولا سونے کی عوض بی بی کلثوم بلوچ کو ذبح کرنے والا چور،قاتل،وحشی ایک خاندان کو اجاڑنے والا بلوچ زاد تھا۔

پاؤں سے فٹبال کا کرتب دکھانے والا نوجوان داد جان بلوچ ریاستی ٹولے کی گولی سے شہید ہوئے تو آج تک قاتل مفرور۔۔۔مفرور قاتل۔ ماں،خاندان ہمدرد ڈی سی آفس پنجگور کے سامنے انصاف کی بھیک مانگ رہے ہیں۔

بلوچ روایات،انسانیت، بلوچیت ایک بندوق بردار بلوچ کے سامنے زیرو تو سندھی سے کیا گِلہ۔۔۔کوئٹہ حکومت یہی ہی کر سکتا ہے اور اسی ہی کا امید ہے۔ بھلے بلوچ ہو اور ایک ہی قبیلے کا ہو۔

سینکڑوں سال پہلے کسی نے کہا تھا کہ بول تاکہ پہچان جاؤ۔
اگر واقعی آپ شکوہ کرتے ہیں کہ مریم نواز پر عمران خان بدتمیزی کرتا ہے تو بلاول صاحب مشہور فقرے بولتے ہوئے کہتے ہیں کتنے بیغیرت ہیں کہ خواتین کو گالیاں دیتے ہیں۔

اب جناب بلاول زرداری ہے تو بلوچ اور بھٹو سندھی۔ بات وہی ہوگئی نا جناب ضیا لانگو کی تشکیل دی گئی۔ بلاول موقع دیکھ کے آپ کے لیے بول پڑیں گے بس صبر کیجئے اور یاد کیجئے گا پی ڈی ایم کوئٹہ جلسہ جب مریم صاحبہ آپ کے ساتھ بیٹھ کے آواز اٹھاتی ہے۔ چونکہ اب مریم اور بلاول دونوں ایک ہی پیج کے محمود و ایاز ہیں تو اس لیے مذمتی بیان کے لیے صبر کا دامن پکڑ کر انتظار کرتے رہیں۔

احتجاج حق کے لیے کیا جاتا ہے کامیابی کی ضمانت کی بنیاد پر نہیں کا فارمولا سمّی بارہ سالوں سے اپنا رہی ہیں اور اپناتے رہیں گے۔ چاہے بلاول مذمت کرے یا نہیں،مریم آواز اٹھائے یا نہیں اور جناب شہباز شریف مقتدر حلقوں سے بات کریں یا نہیں۔

رہی بات دکھے مکّے کی انسانیت کی تو جناب انسانیت کا جنازہ بلوچستان میں بلوچوں نے کندھا دے کر قبرستان آباد کیا ہے اب سندھ میں بھی ایک قبرستان بنا لی جائے تاکہ ہو جائے حساب برابر۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں