بلوچ مسلح تحریک اور خواتین ۔ سفرخان بلوچ ( آسگال)

794

بلوچ مسلح تحریک اور خواتین

تحریر: سفرخان بلوچ ( آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

ہر سرکل اور دیوان کے موضوعات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے جہاں وہ زیر بحث رہتے ہیں۔ اس بات میں دورائے موجود ہی نہیں کہ سیاست سے وابستگی ہونے کی وجہ سے ہمارے سرکل اور نجی دیوان کے گفتگو کسی نہ کسی طرح سے سیاست سے وابسطہ ہی رہے ہیں۔ میں نے حالیہ کچھ وقتوں میں اپنے سرکل اور نجی محفل میں ہر وقت کچھ باتیں ضرور سنی ہیں۔ ایک بلوچ تحریک آزادی میں بلوچ خواتین کا کردار اور دوسرا اتحاد و یکجہتی ہے۔

ہر وقت ہم اسی کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں کہ بلوچ مزاحمتی تحریک میں خواتین کا کردارمطمئن کن ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر بلوچ تحریک آزادی میں خواتین کے کردار کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ موجود تحریک آزادی میں خواتین کا کردار آٹے میں نمک برابر ہے۔ ہمارے سامنے کچھ ایسے کردار ہوتے ہیں جنہیں ہم خود کو مطمئن کرنے کی کوششوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مگر حقیقت میں وہ کرداروں کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو وہ کرداروں کی وابستگی وقتی رہا ہے یا بلواسطہ یا بلاواسطہ تحریک آزادی میں اپنے کسی نہ کسی نجی رشتہ یا تعلقات کے وجہ سے تھا۔

کوئی اپنے بھائی، خاوند یا کسی دوسرے رشتہ کی وجہ سے منسلک تھا ان کا اپنا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔میں پہلے بھی اپنے ایک تحریر میں یہ بات کہہ چکا تھا کہ بلوچ تحریک آزادی میں خواتین کی وابستگی اپنے نجی تعلقات تک محدودہے تو میرے کئی دوست مجھ سے خفا ہوئے۔مگر میں آج بھی اپنے کل والی بات پر کھڑا ہوں۔

اگر ہم اس بات کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں تو اس میں کئی کامیاں و کمزوریاں ہمیں دیکھنے کو ملیں گی۔ جب ہم بی ایس او میں تھے اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں خواتین ہمارے ساتھ تھی مگر وقت کے ساتھ وہ سب خاموشی کی نذر ہوگئے اس کی وجوہات کیا تھی؟ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں اس وقت جو مرد حضرات تھے وہ اس وقت شہید ہوئے ہیں یا متحرک کردار کے مالک ہیں یا ٹارچر سیلوں میں قید ہیں، میرا موقف ہر وقت یہی رہا ہے اگر بلوچ تحریک آزادی میں خواتین کے لئے راہ ہموار کرنا ہے تو سب سے پہلے ایک کو آئیڈیل کا انتخاب کرنا چاہیے۔

بلوچ طلبہ سیاست یا دیگر پلیٹ فارم پر خواتین کے کردار کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہی کہ جب خواتین طلبہ سیاست میں متحرک رہ سکتی ہیں پھر وہ مسلح مزاحمتی تحریک میں کیوں نہیں؟ اگر طلبہ سیاست کی بات کی جائے تو اس کی عمر کتنی ہے زیادہ سے زیادہ پانچ سال یا سات سال پھر وہ کیا کرینگی؟

آج بی ایس او کے پلیٹ فارم سے فارغ التحصیل چیئرمین ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، چیئرمین بشیر زیب، میر عبدالنبی بنگلزئی، شہید حمید شاہین، اور دیگر بلوچ مزاحمتی تحریک میں شامل ہوکر متحرک کردار ادا کرسکتے ہیں تو انہی نشست پہ بیٹھ کر ایک خاتون کی کردار کیوں وقت کے ساتھ خاموشی کی نذر ہوجاتی ہے؟

اگر دیکھا جائے بی ایس او یا بی این ایم کے چیئرمین ، وائس چیئرمین اور کئی خواتین مذکورہ پارٹی اور آرگنائزیشن کے سینٹرل کمیٹی یا زونل عہدہ پر رہ چکی ہیں یا ہیں مگر وقت کے ساتھ وہ سیاست سے نکل کر کیوں گھریلو خاتون بن جاتی ہیں؟

جس وقت شہید بانک کریمہ کنیڈا چلی گئی تو اس وقت بھی میرا موقف یہی تھا اگر بانک کریمہ کنیڈا جانے کے بجائے اس وقت بلوچ مسلح مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کرلیتی تو بہ نسبت بیرون ملک جانے سے یہاں زیادہ اہم کردار ادا کرسکتی تھی، اس کا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ میں شہید کریمہ کی قربانیوں سے انکاری ہوں ہاں اگر کریمہ کی کردار کو دیکھا جائے تو وہ ایک آئیڈیل تھی انہوں نے بلوچ سیاست میں خواتین کے لئے آئیڈیل کا کردار ادا کیا تھا۔

آج بلوچ خواتین ناصرف سیاست میں محدود کردار ادا کررہے ہیں بلکہ کراچی اسلام آباد اور دیگر علاقوں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں تو ان کے لئے راہ کریمہ نے ہموار کی ہے اور انہیں راستہ بھی اسی نے دکھائی ہے اگر وہ یہاں رہتی اور مسلح مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کرلیتی تو وہ وہی کردار وہ مسلح مزاحمتی تحریک کے لئے کرسکتی تھی۔

آج شاری بلوچ خواتین کے لئے ایک آئیڈیل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ کیا اب بلوچ مسلح تحریک آزادی میں خواتین کا کردار رہے گا ؟اگر رہے گاتو کیسے رہے گا؟

ہم خیالی دنیا میں ہر وقت یہی کہتے ہیں کہ آج بلوچ خواتین مردوں کے ساتھ ایک ساتھ مورچوں میں بیٹھے ہیں یہ سب تصورات کے علاوہ کچھ بھی نہیں جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ہاں شاری نے خواتین کو ایک راستہ دکھایاہے۔ اس پہ خواتین اترتے ہیں یا کہ نہیں وہ الگ بات ہے۔

ہمارے خواتین سوشل میڈیا پہ کرد خواتین جنگجووں کی تصویر بڑی فخر سے دیتے ہیں پتہ نہیں وہ اس راستے کو اپنے لئے چننا پسند کرینگی کہ نہیں۔ پہلے جن خواتین کا یہ خیال تھا کہ کاش وہ بھی مسلح مزاحمتی تحریک میں شامل ہوں اور وہ جنگی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں لیکن ان کے لئے کوئی راستہ نہیں تھا آج وہی راستہ شاری بلوچ نے خواتین کو دکھایاہے۔

بات یہاں پہ ختم نہیں ہوتی کئی سوالات آج بھی جنم لے رہے ہیں شاری نے اپنےآخری پیغام میں یہی کہا تھا کہ ،، میں یہی امید کرتا ہوں کہ بلوچ خواتین مزاحمتی جنگ میں شامل ہونگی،، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا خواتین صرف فدائی حملے کرینگے یا وہ بھی محاذ جنگ میں متحرک کردار ادا کرینگے؟ اگر کرینگے وہ کس طرح کرسکتی ہیں مجھے آج بھی یقین ہے کہ کئی خواتین اسی جستجو میں ہیں کہ وہ بھی جنگی محاذ پہ لڑ کر ایک کردار ادا کریں۔ مگر کیسے؟ یہ سوالات ان پالیسی ساز اداروں کے لئے جو یہ پالیسی سامنے لائے ہیں۔

آخر میں کیا آج بھی بلوچ خواتین کرد جنگجووں یا شاری کی تصویر دیکھنے یا پوسٹ کرنے تک محدود ہونگے یا خودکو اس منصب پر رکھنے کی ہمت کرینگے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں