بلوچستان کی للکار! ۔ محمد خان داؤد

466

بلوچستان کی للکار!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ بلوچستان کو وسائل سے حصہ نہیں دیتے، پر دُکھ برابر دیتے ہیں، ماؤں کے سروں پر چادر نہیں اُڑاتے پر ان کی آنکھوں میں آنسو برابر دیتے ہیں۔ وہ ماؤں کے بچوں کو محفوظ مستقبل نہیں دیتے پر انہیں سحرا میں دربدر کرتے ہیں، وہ ماؤں کے بچوں کو زندگی نہیں دیتے پر ان سے وہ جیون بھی چھین لیتے ہیں جس ایک جیون میں کئی جیون لڑی در لڑی بندھے ہوتے ہیں، بلوچ مائیں بلوچستان کی معدنیاتی میں حصہ دار نہیں پر دھرتی کے تمام تر درد ان کے ہی در کا پتا پوچھتے ہیں۔ وہ مائیں سیاسی داؤ پیچ سے واقف نہیں پر نہیں معلوم کیا وہ مائیں بلوچ سیاست میں ایندھن کی طرح استعمال ہوتی ہیں بلوچ لیڈران ان ماؤں کے درد کیش کراتے ہیں اور اپنا حصہ لیکر اسلام آباد اور کراچی میں دھکے کھا رہے ہوتے ہیں، ان ماؤں نے کسی ریاست سے کوئی معاہدہ نہیں کیا وہ کیا جانے کہ کسی معاہدے میں پچیس، تیس، چالیس فیصد کیا ہوتا ہے پر جب وہ دردیلی ماوں کے بچے صحرا میں رُل جائیں جب وہ مائیں یہ جاننے کی کوشش ضرور کرتی ہیں کہ وہ اپنے ہی دیس میں دربدر کیوں ہوئے کیوں ہوئے؟
بلوچ مائیں یہ نہیں جانتی کہ سیندک کیا ہے؟ ریکوڈک کیا ہے، گوادر کیا ہے؟ پر وہ یہ ضرور پوچھتی ہیں کہ ان کے وہ بچے جو نوکنڈی گئے تھے ان کا کیا ہوا؟ وہ کیوں صحرا کے دز میں دفن ہوئے؟ وہ کیوں اپنی ہی دھرتی میں بے نشاں ہوئے؟ وہ کیوں صحرا میں مارے گئے جب کہ ان کی گلیاں اس صحرا سے اتنی دور نہیں تھیں کہ وہ ان گلیوں میں پہنچتے اور ماؤں اور محبوباؤں سے بغلگیر ہوتے!
مائیں یہ نہیں جانتی کہ اختر مینگل کس سے کیا ساز باز کر رہا ہے؟ وہ کیوں سرکاری بینچوں سے اُٹھ کر حزب اختلاف کی بینچوں پر جا بیٹھا اور پھر وہاں سے سرکاری قافلے کا مسافر بنا بلوچ ماؤں سے اس سے کوئی غرض نہیں پر مائیں یہ ضرور چاہتی ہیں کہ اختر مینگل ان کے بچوں کے لیے آواز اُٹھائے جو شال کی گلیوں سے دور نہ تھے پر صحرا میں ہی دفن ہوئے!
بلوچ لیڈروں نے جدوجہد کے پرچم لپیٹ کر رکھ دیے اور بلوچ بیٹیوں نے اپنے دوپٹوں کو پرچم بنا لیا
جدوجہد کا پرچم
بغاوت کا پرچم
آزادی کا پرچم!
صحرا میں مارے گئے بھائیوں کے ماتم کا پرچم!
جنہیں بغاوتوں کو ہوا دے کر پہلی صف میں ہونا چاہیے تھا، جنہیں دیس کی بات کرنی تھی، جنہیں دیس کے دردوں کی بات کرنی تھی، جنہیں ماؤں کے آنسو پونچھنے تھے، بیٹیوں کو دلاسہ دینا تھا،
وہ دیس کا سودا کر رہے ہیں جنہیں، اپنی وزارتیں اور ٹھیکوں میں فیصد لے رہے ہیں
قاتل بھانجوں کی رہائی کی کوشش کر رہے ہیں اور جنہیں کتابوں سے عشق کرنا تھا قدآور آئینوں کے سامنے کھڑے ہوکر محبت سے محبت کرنی تھی، اپنے آپ کو سنوارنا تھا، عشق میں ڈوب جانا تھا کسی کا انتظار کرنا تھا کسی کا ہوجانا تھا یا کسی کو اپنا کرنا تھا محبت کی نظمیں لکھنی تھیں، بارشوں میں بھیگنا تھا، رنگوں کے ساتھ رنگ ہو جانا تھا سب رنگ سانول ہوجانا تھا، مندروں کا دیپک ہونا تھا محبت کی شام ہونا تھا عشق کی صبح ہونا تھا راتوں میں دئیوں کے ساتھ محبت میں جلنا تھا شئے مرید کی حانی بننا تھا وہ دیس کی کونج بن کر للکار بنی ہوئی ہیں، وہ جانتی ہیں دیس ہوگا، دیس کی گلیاں ہونگی، دیس کی صبح ہو گی، دیس کی شامیں ہونگی، دیس کی بارشیں ہونگی، دیس کے اُوس ہوگی، آزادی دھرتی پر محبت کی بارش ہوگی، دھرتی پر پھول ہونگے، پھولوں میں آزادی کی خوشبو ہوگی، پیروں میں درد کی جوتیاں اور دھول نہیں پائل ہوگی!
زباں پر نوحہ نہیں محبت کے گیت ہونگے، آنکھوں میں آنسو نہیں خواب ہونگے پھول بس اداس لاشوں پر نہیں پر دلہا کی سیج پر ڈالے جائیں گے بھائی، بھائیوں کے لیے بس کفن نہیں پر شادی کے جوڑے لائیں گے بابا اپنے ضعیف کاندھوں پر بس لاشیں نہیں اُٹھائیں گے پر ان کے ساتھ وہ جوان بچے ہونگے جو محبت میں عشق جیسے ہوتے ہیں۔ بہنیں بس بھائیوں کی تلاش نہیں پر ان کے لیے خوبصورت بیویاں ڈھونڈا کریں گی، بیٹیاں اپنے ہاتھوں میں گم شدہ باباؤں کی تصویر نہیں پر بابا ان کے لیے شاہ مرید تلاشتے رہیں گے!
جب تک دیس سے ماتمی موسم ہٹے تب تک دیس کی بیٹیوں نے اپنے دوپٹے پرچم بنا لیے ہیں اور وہ ہر اس بات پر سراپا احتجاج ہیں جو بات دیس کی گلیوں میں لاشے لاتی ہیں اور ماؤں کو رلاتی ہیں
بلوچ دھرتی کے لیڈر مصلیحت کے شکار ہیں
اور بلوچ دھرتی کی دھنک رنگ بیٹیاں سر راہ للکار بنی ہوئی ہیں
ایسی للکار جس کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ
”کونج بہ کائی گونج پریان ء جی!“
وہ اپنے بھائیوں کے یوں صحرا میں دربدر ہونے اور دیس کا یوں درد سے بھر جانے پر سراپا احتجاج ہیں
اب دیس کی بیٹیاں جب بھی اس صحرا سے گزریں گی جس صحرا میں مجنوں کی محبت جیسے بھائی پیاسے ہی دفن ہوئے تو انہیں ایسا خیال ضرور آئے گا کہ
”ریت پر ننگے پیر چلتے اس نے سوچا
ہوا میں گیلاہٹ سمندر کی ہے
یا بوسوں کی؟!“
اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جائیں گے
بھائیوں کے یوں دیس کی ریت میں دفن ہونے پر وہ اداس ہیں
اسی لیے ان کا دل روتا ہے
اور ماتم کرتی ہیں
وہ بھائی جو نظموں جیسے تھے
”اس نظم کو دفنانے
محبت آئی
دیس کی شام بھی رات بھی ماں بھی
پھر سب نے مل کر
ا ن راستوں پر ماتم کیا
جو دیس کی گلی کو جا تے تھے!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں