بلوچستان کو ایک مقتل گاہ بنایا گیا ہے – بلوچ یکجہتی کمیٹی تربت

426

بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں بدھ کے روز سانحہ نوکنڈی، چاغی کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاج کیا گیا –

خواتین اور شہریوں کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر اٹھا کر تربت پریس کلب سے شہید فدا چوک تک ریلی نکالی اور واقعہ کے خلاف نعرہ بازی کی –

ریلی میں ایچ آر سی پی کے ریجنل کوارڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز، بی ایس او کے کارکناں اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی –

ریلی کے شرکاء نے سانحہ نوکنڈی اور اس واقعہ میں شہید ڈرائیور کو انصاف فراہم کرنے اور واقعہ میں ملوث سیکیورٹی اہلکاروں کو گرفتار کرکے سزا دلانے کا مطالبہ کیا۔

شہید فدا چوک پر احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ایچ آر سی پی اسپیشل ٹاسک فورس تربت مکران کے ریجنل کوارڈینیٹر پروفیسر واجہ غنی پرواز، ستی بلوچ، رژن بلوچ، کریم شمبے، عقیل جلال اور دیگر نے کہا بلوچستان کو ایک مقتل بنا کر روز بلوچوں کا ناحق خون بہایا جارہا ہے، اسلامی عبادت کے تحت روزانہ پانچ نمازیں مسلمانوں پر فرض ہیں مگر بلوچستان میں بلوچ روزانہ چھ نمازیں پڑھتی ہیں جن میں ایک نماز جنازہ شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندر بلوچوں کو تیسرے درجے کا شہری نہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ہے، یہ رویہ سیکیورٹی فورسز نے پیدا کی ہے جو بلوچوں کو ایک مقبوضہ قوم ظاہر کرتی ہے-

انہوں نے کہا کہ کسی ریاست میں سیکیورٹی اداروں کا جو کردار ہوتا ہے وہ ملک کے دیگر عام معاملات میں نظر نہیں آتی لیکن پاکستان میں سیکیورٹی اداروں کا بلوچستان پر مکمل گرفت ہے، وہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں سول انتظامیہ کے بجائے خود سامنے ہوتے ہیں اور یہ جتاتے ہیں کہ بلوچ اس ریاست میں بہ حیثیت انسان بے معنی شے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نوکنڈی کا سانحہ انسانی تاریخ میں درندگی اور جبر سے یاد رکھا جائے گا۔

انکا کہنا تھا کہ نہتے گاڈی ڈرائیور کو صحرا میں گاڑیاں چھین کر بے یار و مددگار بھوک پیاس سے شہید کیا گیا اور اس پر درندگی بس نہیں کی گئی بلکہ اس المناک انسانی سانحہ کے خلاف پرامن شہریوں پر دو بار حملہ کرکے بیس افراد کو زخمی کیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ ریاست بلوچستان میں جبر و استبداد اور مظالم کی نت نئی تاریخ رقم کررہی ہے لیکن انسانی حقوق کے دعویدار ادارے اس پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کیے شریک جرم ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی حقوق مخض چند عالمی اداروں کا اپنے مفادات کے تحفظ کا ایک نعرہ ہے اگر بلوچ طاقت ور ہوجائیں تو انسانی حقوق کے نام نہاد ادارے ان کے ساتھ مل کر شور کریں گے ابھی چونکہ بلوچ مظلوم ہیں اس لیے انسانی حقوق اور انسانیت کا نعرہ مظلوموں کے لیے بے معنی ہے۔