جبری گمشدگیوں اور قتل عام نے پاکستان کی دہشتگردانہ چہرہ عیاں کردیا۔ چیئرمین خلیل بلوچ

300

بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں شدت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگیوں اور بلوچ عوام کی قتل عام نے پاکستان کی دہشت گردانہ چہرہ کو دنیا کے سامنے مزید عیاں کردیا ہے۔ پاکستان مظالم اور درندگی کی تمام حدود کو پار کرچکا ہے۔ اس میں پاکستان انسانی حقوق کے چمپئین اداروں و ممالک کی خاموشی کو ایک استثنیٰ کی صورت میں استعمال کررہی ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ گزشتہ دو ہفتوں میں خضدار سے یونیورسٹی کے طالب علم حفیظ بلوچ سمیت بلوچستان بھر سے پاکستانی فوج نے پچاس سے افراد کو جبری لاپتہ اور سات افراد کو قتل کیا ہے۔ پنجگور میں یونیورسٹی طالب علم احتشام اور ایک ذہنی مریض ندیم ابدال کو سرعام گولیاں مار کر قتل کیا گیا جبکہ آواران تیرتیج سے دو بھائیوں کوحراست میں لے کر آرمی کیمپ منتقل کیا گیا، جہاں تشدد سے ایک بھائی محمد علی ولد دینار کو قتل کرکے اس کی لاش کو ٹریکٹر کے ذریعے گڑھا کھود کر ڈمپ کیا گیا، جبکہ دوسرے بھائی کو شدید زخمی حالت میں پھینک دیا گیا۔ اسلام کے نام لیوا پاکستان قتل کے بعد ہماری لاشوں کے لیے احترام و عزت گوارا نہیں کرتا کہ انہیں ورثا کے حوالے کرے، لیکن سد آفرین ترتیج کے عوام اور ہماری ماں، بہنوں کو،جنہوں نے پاکستانی فوج کی انکار کے باوجود ہاتھوں ڈمپ شدہ لاش کو نکال کر بلوچی رسومات کے مطابق دفن کرکے جرات کی نئی مثال قائم کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی دہشتگردی بلوچستان میں پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے اور اس میں روز بروز شدت آرہی ہے۔ جو مظالم پاکستان نے بنگلہ دیش میں سر انجام دیے تھے آج انہی مظالم کو بلوچستان میں دہرایا جارہا ہے۔ لیکن پاکستان اور اسکے ادارے یہ جان لیں کہ اسی ظلم و ستم کی وجہ سے بنگلہ دیش میں جو سبکی ہوئی بلوچستان میں بھی یہی ہوگا۔ ظلم و جبر سے تحریک آزادی کمزور و ناتوان ہونے کی بجائے مزید پروان چڑھ کر مضبوط ہوگی۔

چئیرمین خلیل بلوچ نے بیان کے آخر میں کہا کہ عالمی انسانی حقوق کے ادارے پاکستانی مظالم کا نوٹس لیں۔ بلوچستان ایک انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ انسانی بحران دنیا کے امن کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ عالمی ادارے اور انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں مداخلت کرکے انسانی بحران کی کیفیت کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔