تربت یونیورسٹی میں قابل امیدواروں کو نظرانداز کرنا ۔ اسلم آزاد

414

تربت یونیورسٹی میں قابل امیدواروں کو نظرانداز کرنا

تحریر: اسلم آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

یونیورسٹی آف تربت نے حالیہ دنوں میں اپنی فیکلٹی پوزیشن کے کچھ آسامیوں کے لیے ایک مقامی اخبار میں ایڈوائزمنٹ دیا تھا۔ جس میں شعبہ تعلیم، بلوچی، سیاسیات، معاشیات، کمپیوٹر سائنس،کیمسٹری، بائو کیمسٹری، انگلش، ہسٹری اور دوسرے ڈیپارٹمنٹ شامل تھے۔

اس مرتبہ یونیورسٹی آف تربت نے فیکلٹی پوزیشن کی بھرتی میں بے ضابطگی اور بد عنوانی کی مثال قائم کردی ہے جس کی وجہ سے متاثرین امیدوار سراپا احتجاج ہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی کے  بلوچی ڈیپارٹمنٹ کے پی ایچ ڈی اسکالر، بانُل بلوچ جنہوں نے تربت یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں 68 مارکس حاصل کئے اور مجاہد بلوچ، پی ایچ ڈی اسکالر ، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، سات سال یونیورسٹی میں ٹیچنگ کا تجربہ رکھتے ہیں، انٹری ٹیسٹ میں 65 نمبر حاصل کئے۔  اس کے باوجود یونیورسٹی کی نااہل انتظامیہ بانُل بلوچ اور مجاہد بلوچ کو بطور لیچکرار  ریجکٹ کرتے ہیں ہے اور وضاحت دینے سے بھی انکاری ہے۔

بانُل بلوچ اور مجاہد بلوچ  کی جگہ ایک سفارشی امیدوار، شہناز طارق، جن کی تعلیمی قابلیت صرف ایم فل ہے۔ موصوف کی انٹری ٹیسٹ میں سب سے کم مارکس 53 ہیں، اور یونیورسٹی ٹیچنگ تجربہ صرف 6 ماہ کا ہے، بلوچی ڈیپارٹمنٹ میں بطور لیکچرار  اپوائمنٹ ہوتے ہیں کیونکہ  شہناز طارق تربت کے بااثر گچکی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ بانل بلوچ اور مجاہد بلوچ بیچارے، بے سہارے اور بے بس لوگ ہیں۔

یہ ساری کہانی تربت یونیورسٹی کی بے بدعنوانی کا ایک بات منہ بولتا ثبوت ہے۔ یونیورسٹی آف تربت میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ نہ کہ یہاں مجاہد بلوچ اور بانل بلوچ جیسے قابل اور ذہین لوگوں کی کوئی  قدر اور قیمت ہے۔

اس کے علاوہ نااہل انتظامیہ کی کارگردگی کی  دوسری مثال یہ کہ پورے بلوچستان میں یونیورسٹی آف بلوچستان سوا او کہیں ہسٹری ڈیپارٹمنٹ نہیں ہے، یونیورسٹی آف تربت ہسٹری ڈیپارٹمنٹ کے لیے کے خالی آسامیوں لیے اشتہار دیتے ہیں،  ایم فل اور پی ایچ ڈی کے  تمام بے روزگار امیدوار اپنی اپنی درخواستیں جمع کرتے ہیں، سب کے سب  بھرپور انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہیں۔ بے روزگار امیدوار تیاری کر کے پچاس بجائے ستر ستر مارکس لیکر پاس ہوتے ہیں۔ تربت یونیورسٹی پھر امیدواروں کو انٹرویو کے لیے کال بھی کرتے ہیں، بلاآخر سب کہ سب کو ریجکٹ کئے جاتے ہیں، کیونکہ ان قابل اور زہین امیدواروں میں سے نااہل انتظامیہ کی کوئی رشتہ دار نہیں تھا، نہ کہ ہسٹری ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک امیدوار اپوائمنٹ ہوا تاکہ وہ باقی ڈیپارٹمنٹ کے ہسٹری کے مائنر سبجکٹ کو  پڑھائے۔ تربت یونیورسٹی کا نااہل انتظامیہ مستحق امیدواروں کو یہ وضاحت دیں یہ کیا تماشہ ہورہا ہے۔

اگر نااہل انتظامیہ کو ہسٹری ڈیپارٹمنٹ میں  کسی کو بھرتی نہیں کرنا تھا تو آسامیوں کے لیے ایڈوائزمنٹ کیوں دیا ہے،  بے روزگار امیدواروں کو بھرتی کے نام پر انٹری ٹیسٹ اور انٹرویو کیوں لیا گیا ہے، انکو بغیر کسی وجہ سے ٹارچر  کیوں کیا گیا ہے، کیا امیدواروں کی کوئی عزت نفس نہیں ہوتی؟ کیا امیدواروں کی عزت نفس سے کھیلنا  پاکستان کے آئین، 1973 اور تربت یونیورسٹی ایکٹ، 2012 کا حصہ ہے؟ کیا مملکت خداد میں آئین و قانون صرف برائے نام ہیں؟ متاثر امیدواروں کی آواز نہ بنا اور صحافتی حضرات کی خاموشی نااہل انتظامیہ کے ساتھ شریک جرم ہونے کے مترادف ہے؟

تربت یونیورسٹی کے تمام متاثر امیدواروں کے ساتھ ناانصافی اور میرٹ کی پامالی پر حکومتِ وقت اور بلوچستان ہائی کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ اس قسم  کی سنگین بے ضابطگیوں  پر جلد از خود نوٹس لیں اور مظلوم امیدواروں کو انصاف دلائیں۔ اگر ان امیدواروں کو عدل اور انصاف نہیں ملا تو عنقریب مستبقل میں اس کے سنگین نتائج ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں