قومی شعور ۔ منیر بلوچ

236

قومی شعور

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فرانز فینن کتاب افتادگان خاک میں کہتے ہیں کہ قومی شعور ہی تہذیب کی سب سے واضح شکل ہے. اگر ہم قومی شعور کو مد نظر رکھ کر اس خطے کے سیاسی، معاشی، تعلیمی، ثقافتی سرگرمیوں پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ بلوچ جنگ آزادی نے بلوچ قومی کو سیاسی شعور سے لیس کرکے اپنے قومی تہذیب کو زندگی عطا کی ہے. صرف قومی تہذیب کو زندگی ہی نہیں بلکہ بلوچ قوم کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے. یہ خطہ برطانوی سامراج کی نو آبادیاتی نظام سے اتنا متاثر ہوا تھا کہ آج تک اسکے اثرات محسوس کئے جاسکتے ہیں. برطانوی سامراج نے تقسیم کرو پالیسی کے تحت نو آبادیاتی ممالک پر ایسی کاری ضرب لگادی ہے جو صرف جنگ سے ہی ختم کئے جاسکتے ہیں. سب سے بڑی مثال بلوچستان پر قابض پاکستان کے سیاسی حالات ہیں، جس سے برطانوی نظام کی جھلک دکھائی دیتی ہے.

بلوچستان 1839 سے جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہے. جنگ ویسے تباہی کا نام ہے لیکن قومی آزادی کی جنگ قوم کو شعور کی ان بلندیوں تک نہ صرف پہنچاتا ہے بلکہ جنگ سے متاثر اقوام اس جنگ سے سیکھ کر ایک باشعور قوم کی تشکیل کو ممکن بنادیتے ہیں اور بلوچستان کی جنگ آزادی اس کی واضح مثال ہے.

نوآبادیاتی نظام میں مقامی آبادی ہمیشہ سہولتوں سے محروم رہتا ہے. قابض ریاست ان کی آواز دبانے کے لئے مختلف منصوبے تشکیل دیتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ استعمار کے مقدر میں ہمیشہ شکست ہی آئی ہے.

گوادر میں جاری حق دو تحریک دو ہفتوں سے جاری ہے جس نے سیاسی شعور کی ایسی رعنائیاں دکھائی ہیں، جس نے اس خطے کے تمام عوام کو متاثر کیا. کفن پوش ریلی، بچوں کی ریلی، اور آج خواتین نے ریلی نکال کر نہ صرف بلوچستان کی تاریخ کی بلکہ قابض ریاست کے نام نہاد شعور یافتہ اور لبرل خواتین نے ایسی ریلی کبھی نہیں دیکھی ہوگی اور نہ ہی نکالی ہوگی.

یہ واضح ثبوت ہے اور قابض ریاست کے لیے ایک پیغام ہے کہ آپ کے ظلم وستم سے مقبوضہ اقوام کی جدوجہد نہ روکیں گی اور نہ ہی ختم ہوگی بلکہ شعور کی طاقت سے لیس ہو کر آپکی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی. یہ قومی آزادی کی جنگ ہے جس نے روایتوں میں جکڑے بلوچ خواتین کو ایک سیاسی شعور عطا کی. گوادر کی خواتین ریلی نو آبادیاتی نظام سے نفرت اور بلوچ سیاسی شعور کی مثال ہے اور قومی تہذیب کے زندہ رہنے کا ثبوت ہے.

بلوچ قومی پارٹیاں اور تنظیمیں جو آزادی کی جنگ میں مصروف عمل ہے. ان کو چاہئیے کہ اتحاد کو یکجہتی کا مظاہرہ کرکے بلوچ قومی آزادی کو اپنی منزل تک پہنچانے کا سامان پیدا کریں کیونکہ آج وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ قومی جنگ کی رفتار کو تیز کیا جائے.

بلوچستان پر قابض ریاست کے تمام ادارے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں. اندرونی طور پر تمام اقوام اس ریاست سے بیزاری کا شکار ہے. اور بیرونی طور پر یہ ریاست مکمل طور پر تنہائی کا شکار ہے. اسکی طاقت صرف اسکے عسکری ادارے ہیں لیکن فوجی طاقت کمزور معشیت میں کمزور کا شکار رہتی ہے. اس لیے لوہا گرم ہے اور ہتھوڑا تیز چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ بلوچ قوم اب شعور کی طاقت سے لیس ہو کر اس سامراج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں