بولان سے عشق – تھولغ بلوچ

606

بولان سے عشق

تحریر: تھولغ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عشق محبوب سے ہو یا وطن سے ہو  عشق بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے، یہی سب کچھ میرے ساتھ بھی ہو رہا ہے کہ میں اپنےپیارے وطن کی محبت و الفت میں کونسے مقدس الفاظ ڈھونڈ کے لاؤں جن سے میرے محبوب وطن سے محبت بیان ہو جائے ؛ میں بولانسے محبت و الفت کا قصہ سنانے جا رہا ہوں، میں کوہ سلیمان کا باسی مجھے اپنے وطن بلوچستان کے زرے زرے سے اسی طرحمحبت و عقیدت ہے جس طرح مجھے کوہ سلیمان کے حسین مناظر پیش کرتا ہوا  فورٹ منرو یا یکبئی، باركھان کا سوران یا کوہلو میںمست توکلی کے مزار سے ہے.

گوادر کا نیلگوں سمندر ہو یا  جیونی و گڈانی کے ساحل کی سرخ ریت ہو ، ہربوئی کے پہاڑ ہوں یا سیستان و ہلمند کے بلوچ ہوں میرےمحبوب وطن کی طرح مجھے میرا بلوچ قوم بھی اتنا ہی مقدس ہے جتنا کہ مجھے میرا وطن مقدس ہے، بلوچ چاہے پنجاب کا ہو ، سندھکا ہو ، عمان و قطر کویت کا ہو ، مکران و رخشان کوہ سلیمان کا ہو

شال کی ہنه جھیل ہو یا چلتن کے پہاڑ و  جبل نور ہو، مجھے میرا محبوب وطن تو مقدس ہے۔

یہاں بات بولان کی ہوئی ہے اور پورے وطن و بلوچ قوم سے محبت و  عاشقی جاگ اٹھی، عاشق کبھی اپنی محبوب کی آنکھوں کیتعریف کرتا ہے تو کبھی سرخی مائل ہونٹوں کی تو کبھی زرد و ملائم چہرے کی، عاشق کے لیے محبوب کی ہر ادا مقدس ہے اسی لیےمیں بھی اپنے محبوب وطن کی محبت میں لگ گیا جو بیان ہوتی چلی گئی۔

بولان سے عشق میں میں بھی ایک عاشق کی طرح بےقرار تھا کہ کب اپنی محبوبہ سے ملاقات ہو گی انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں توایک دن آن پہنچا کہ اپنے محبوب سے ملاقات کی تیاری ہوئی ، اپنی یونیورسٹی لائف کی یہ گھڑی تھی جب ہم نے اپنی یونیورسٹی میںپہلے ہی سیمسٹر کا امتحان دینے کے دوسرے دن ہی پلین کیا تھا اور ہم بولان کے پہاڑوں کی طرف چل دیے۔

ہمارے دوستوں میں آٹھ دوست تھے  اور ایک گاڑی کا ڈرائیور اور اس کے ساتھ ایک دوست تھا، کھانے پینے کا سامان ہم نے شال سےہی لے رکھا تھا، سالن اور چاول ایک دوست کے گھر سرياب میں بنالیا تھا، اب صرف روٹی لینی تھی ، جو ہم لوگوں نے کولپر سےماشاءالله ہوٹل سے اٹھا لی۔  کولپر نہایت ہی خوبصورت مناظر پیش کر رہا تھا اور اس کی خوبصورتی کو گزرتی ٹرین نے اور بھیخوبصورت بنا دیا تھا،

کولپر سے ہم لوگ راوانه ہوۓ تو کوئی  ایک دو گھنٹوں میں ہم لوگ پیر غائب بولان پہنچ گئے تھے ، سب سے پہلے ہم لوگوں نے مزار پہحاضری دی اور مغفرت کی دعا مانگی ، اس کے بعد پہاڑ سے نکلتے پانی سے نہانے کے لیے چلے گئے، خوب نہادھو کے ، کھانے کےلیۓ ہم کسی چھاؤں والی جگہ پہ جا کے بیٹھے، بولان کے پہاڑ انتہائی گرم ہوتے ہیں گرمیوں میں , کھانے کے بعد ہم دوسرے پکنک  پوانٹ پہ گئے جہاں پہ آم بھی کھائے اور بلوچی چاپ بھی کی جس سے خوب لطف اندوز ہوۓ اور یہاں سے ہم شال کی طرف واپسیکے لیے روانه ہوۓ ، جونہی ہم روڈ پہ آئے بارش بھی شروع  ہو گئی، جس نے ہمارے دل کی خوشی کو دوبالا کر دیا تھا اور یہاں سےایک نا خوش اسلوبی ہوئی جس کی وجہ سے بارش کا مزہ اور بولان کے اونچے پہاڑکی چوٹیوں سے اترتے پانی کو ہم نمحسوس نہ کرپائے۔

ہماری گاڑی کے ڈرائیور نے کسی ٹرک ڈرائیور کو کوئی نازیبا سائن دیا اپنے ہاتھوں سے، وہ ٹرک ڈرائیور براہوئی سپیکنگ بلوچ تھاالبتہ اپنے آپ کو رئیسانی رئیسانی بول رہا تھا، پورے سفر میں ایک آدھ گھنٹے تک وہ ٹرک ہمارے پیچھے زور زور سے لا رہا تھا،ہمارے پاس چھوٹی گاڑی تھی اس کے پاس ٹرک جو ہمارے اوپر لانے کی پوری کوشش کر رہا تھا، ہم سب دوستوں کے تو طوطے اڑ گئےتھے۔

اسی طرح ہم کوئی کولپر کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ہم لوگوں نے اپنی گاڑی روکی اور ٹرک ڈرائیور سے وجہ پوچھا تو ٹرک ڈرائیورہماری گاڑی کے ڈرائیور پہ ناراض تھا ( یاد رہے گاڑی جو ہمارے پاس تھا، ہم لوگوں نے كرايه پہ لی تھی اسکا ڈرائیور بھی ایک بلوچتھا تو ہم لوگوں نے گاڑی سے اتر کر معامله کچھ سلجھا دیا معافی مانگی اور ٹرک ڈرائیور نے معاف کر دیا اور یوں ہماری جان چھوٹگئی، اس طرح ہم بھی کولپر ماشاءالله ھوٹل پہ پہنچے اور وہاں پہ گرما گرم چاۓ پی اور سکھ کا سانس لیا۔

ماشاءالله ہوٹل پر ہم لوگوں نے بلوچی چاپ بھی کیا جس سے ساری تھکن دور ہو گئی، وہاں سے ہم لوگ رات کے وقت شال کی طرفراوانه ہوۓ اور رات کے نو بجے ہم شال میں یونیورسٹی پہنچ گئے ، تمام دوست اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ، اور یوں ہمارا بولان کاسفر تمام ہوا۔