شبِ ظُلمت میں منتظرِ سحر ۔ فرھاد بلوچ

145

شبِ ظُلمت میں منتظرِ سحر

تحریر:فرھاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ کئی برسوں سے خونریزی کی اک رسم چلی آ رہی ہے ۔ اس آگ نے تقریباً پورے بلوچستان کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے ، وہیں پر اک سرحدی شہر پنجگور بھی ظلمت کی اندھیروں میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ ایک سیاہ رات اور خونخوار درندوں کے زد میں وہاں کےباسی بے بس نظر آتے جا رہے ہیں ۔ گویا کہ جنگل کا ایک قانون بن چکا ہے۔ جہاں ہر طاقتور درندے نے اپنی تیز دھار دانتیں معصوم اور کمزور طبقے کے گردنوں میں اتار دیئے ہیں۔ بالکل اسی طرح کا حال اس انسانوں کے بستی کی ہے – جہاں ہر طاقت ور نے بے گناہ اور سادہ لوح انسانوں کی زندگیاں اندھیروں کی طرف دھکیلا ہے۔

وہ تمام سیاسی پارٹیاں جو ریاست کی پیدا کنندہ ہیں ان کی سرپرستی میں کچھ مسلح لوگ جنھیں یا تو ڈیتھ اسکوا ڈ کے نام سے جانتے ہیں یا تو مذہبی انتہا پسند یا تو ریاست کے تلوے چاٹ جو دشمن کی چالوں میں آکر خود اپنے بھائیوں کی گردن کاٹ رہے ہیں۔ وہ تمام پارلیمانی سیاسی پارٹیاں جو قوم کے سامنے سفید پوش بن کر لوگوں کی حقوق کی بات کرتے ہیں، وہی رات کے اندھیرے میں نقاب پوش بن کر لوگوں کے گھروں کی پامالی کرتے ہیں ۔ چوری کرتے ہیں اور لوگوں کا قتل کرتے ہیں۔

بد قسمتی سے وہاں کے نوجون جن سے روشن مستقبل کی امیدیں وابستہ ہیں ، جو ایک روشن صبح کی ضامن ہیں ان کی چالوں میں آکر چند پیسوں کے لئے ہتھیار اٹھا کر اسی خونخوار راہوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ریاست کی چالوں میں آکر اپنے بھائیوں کا قتل کرتے ہیں جن کے ساتھ صدیوں خونی رشتے ہیں۔ وہ اپنے پہاڑ ، صحرا و سمندر سے محبت چھوڑ کر پانچ دریا کی زمین سے یاری کرتے ہیں جو ایک انجان زمین ہے، جو ہمیں کبھی اپنا نہیں سکتی۔

یہ وطن (بلوچستان) جس پر ہمارے فرقوں نے بلوچ روایات کو زندہ رکھا آج کچھ بھکاوے میں لوگ ان روایات کی پامالی کر رہے ہیں ۔ اگر زمیں اور قوم سے وفاداری کا دامن مضبوطی سے تھامنا ہے تو بلوچ کو ایک قوم پرست اور اپنی نسلوں کی بقاء کے لئے ایک محفوظ اور آزاد سر زمیں کے لئے جہدوجہد کرنا ہے۔ اور تمام بیرونی عناصر کو اکھاڑ پھیکنا ہے۔

قلم اور کتاب سے ایک روشن صبح کی طرف گامزن ہونا ہے۔ اگر ایک محدود سوچ کے ساتھ ہم زندہ رہے اور چند پیسوں کے لئے ایک دوسرے کی گرن کاٹتے رہے تو اندھیری رات ہماری مقدر ہے، پنجگور کے لوگ ایک ایسی دوڑ کی طرف دوڑ رہے ہیں، جہاں صرف اندھیرا ہے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ چند پیسوں کے لئے ہر کوئی اس دوڑ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے لیکن یہ اندھیری راستوں کا دوڑ ایک بھیانک کنویں کی طرف جاتا ہے جس میں گرنا ان کا مقدر ہے۔ بلکہ ان راستوں کی طرف چلنا ہے جو روشن چراغ کی طرح قوم کو روشنی دیتے رہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں