بلوچ مزاحمتکاروں کی استقامت – علی دربان بلوچ

312

بلوچ مزاحمتکاروں کی استقامت

علی دربان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم عرصہ دراز سے اپنی قومی بقاء اور سرزمین کی آزادی کے لیے عالمی قوتوں سے لڑتا ہوا آرہا ہے، قدیم آریائی یلغار سے لیکر موجودہ پاکستانی جبر و بربریت کے سامنے سینہ سپر ہونیوالی یہ قوم اپنی مدد آپ کے تحت اپنی قوم اور اپنی سرزمین میں آباد دیگر اقوام کیلئے ہمیشہ آزادی و خوشحالی کا معاون ثابت ہوا ہے.

1947ء میں فرنگی سامراج کی تشکیل شدہ ریاست پاکستان ، 27 مارچ 1948ء کو مملکت نصیر خان (بلوچستان) پر قبضہ کرکے یہاں اپنے مکروہ عزائم سے بلوچ قوم کو سبوتاژ کرتا ہوا آرہا ہے لیکن بلوچ قوم اپنی تاریخی واقعات اور قومی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی یلغاروں کو کچل دینے میں کسی بھی قسم کی قربانیوں سے دریغ نہیں کررہا۔

1958ء کے بابو نوروز خان کے مزاحمت سے لیکر رواں سال کے پرزور جھڑپوں ، فدائی حملوں اور حریت پسند تحریکوں کے اتحاد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بلوچ قوم کی خوشحالی اور گلزمین کی آزادی قربت کے آخری نہج تک پہنچ چکے ہیں.

گذشتہ چند برسوں سے پاکستان، بلوچستان پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے بہت سے ایسے استبداد بلوچ قوم پر مسلط کرچکے ہیں جو نہ انسانیت سے وابستہ ہے نہ دین اسلام ایسے مظالم کی اجازت دیتا ہے لیکن شکست خوردہ پاکستانی فوج ایسے بربریت کو اپنی کامیابی سے تعبیر کرکے اپنے آپ کو مستحکم انتظامیہ تصور کرتا ہے مگر حقائق نے انھیں قدم قدم پہ یہ سبق سنا دیا ہے کہ تو بزدل ہے اور بزدل کا کوئی مستقل میدان نہیں جس پر وہ ڈٹ سکے۔

قبضہ کے شروع دن سے لیکر آج تک کے حالات میں کبھی بزرگ رہنماوں کو الله تعالئ کے پاک کلام پر دھوکہ دینا ، کبھی ماؤں کو روڈوں پہ رلانے کیلئے پیاروں کو لاپتہ کرنا ، بلوچ وطن پر دھوکہ دہی سے قبضہ اور بلوچوں کے قدرتی وسائل کی بےدردی سے لوٹ مار ، ساحل پر غیر ملکی درندوں کا استقبال اور قدرتی گیس پر سے ماؤں کو لکڑیاں جلانے پر مجبور کرنے سمیت حیات بلوچ ، برمش واقعہ ، لمہ تاج بی بی کی شہادت ، بلوچ نوجوانوں کو فیک انکاؤنٹر کرنا اور طلباء پر پولیس تشدد جیسے افسوسناک المیے ہر ایماندار ، غیرت مند اور باضمیر انسان کو جاگ اٹھنے پر آمادہ کرتے ہیں ساتھ ہی بلوچ سرمچاروں کے کامیاب حملے اور بلوچ دانشوروں کے سیاسی جد وجہد الگ الگ انقلابات کی کلیدیں ہیں۔

اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دشمن بلوچوں کی جنگ آزادی کو کچلنے کے لئے مختلف حربے بھی استعمال کررہے ہیں بالخصوص ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کا استعمال ان کیلئے ایک مکمل قوت بن چکی ہے، جسے وہ مواقع کے موافق استعمال کرتا ہے بعد ازاں انھیں بلوچ عوام پر ڈاکے ڈلواتے اور بلوچ عورتوں پر جنسی زیادتیوں کے ستم گاری پر بٹھاتے ہیں۔

یقیناً ایسے نامساعد حالات میں استقامت اور جوان مردی کو برقرار رکھنا کسی فرض سے کم نہیں تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں قوموں پر جب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اتر ے ہیں لیکن اس سے قبل انھیں ضرور بالضرور چند سخت ترین حالات برداشت کرنے پڑے ہیں۔

مآزادی کا سورج طلوح ہونے والا ہی ہے , جو چند حیران کن آزمائشوں میں پوشیدہ ہے۔ باشعور نوجوانوں کو استقامت کیساتھ تحریک آزادی میں حصہ لینا چاہیئے ایسے حالات اور ایسے موقع پہ جوانی وطن کے نام قربان کرنا ہی عقلمندی ہے کیونکہ نہ تو تحریک آزادی میں حصہ لینے سے موت واقع ہوتی ہے نہ ہی انسان ظالم کے خلاف تسلیم خم کرنے سے ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے ۔

دونوں صورتوں میں موت کا اپنا ایک الگ طے شدہ دن ہے جو بجائے کسی ایکسیڈنٹ ، بیماری ، وبا یا ( الله نہ کرے ) کسی ظلم میں یا گناہ کے کسی کام میں آنے سے بہتر ہے کہ وطن کیلئے ، ننگ و ناموس اور اپنی حق کیلئے لڑ کر شھید ہونے میں ھزار شرف حاصل ہیں ۔
الله تعالی‌ مجھے اور میرے گلزمین کے باہمت ، باضمیر اور باشعور نوجوانوں کو اس کار خیر میں حصہ لینے کی توفیق عطاء فرمائے .


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں