بلوچستان اور مزاحمت ۔ زھیر بلوچ

387

بلوچستان اور مزاحمت

تحریر:زھیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب ہم بلوچستان کی تاریخ پر نظر دہراتے ہیں، تو ہمیں ہمیشہ جنگ اور مزاحمت کی داستانیں ملتی ہیں. بلوچستان پر ہمیشہ سامراجی قوتوں کی نظریں تهیں اور آج بهی ہیں، کهبی پرتگیزیوں کی شکل میں تو کهبی سامراج برٹش کی شکل میں اور آج کے قابض ایران اور پاکستان کی شکل میں بلوچستان پر قابض ہیں۔ لیکن بلوچوں نے ہمیشہ اپنی سرزمین اور اپنی قومی بقا کی خاطر مزاحمت کا راستہ اختیار کیا. بلوچوں نے کهبی بهی ظالم اور قابض قوتوں کے سامنے سر نہیں جهکایا اور نہ ہی جهکائیں گے۔
.
جب بلوچستان کی ساحل اور وسائل پر پرتگیزیوں کی نظریں تهی تو حمل جیہند نے اپنی سرزمین اور ساحل کی دفاع میں مزاحمت کیا اور جب انگریزوں نے بلوچستان پر حملہ کیا تو شہید خان محراب خان اور دیگر بلوچوں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کیا. جب خان محراب خان کو کہا جاتا ہے کہ انگریز طاقتور ہیں ان کے خلاف لڑنا ناممکن ہے تو محراب خان کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں انگریز طاقتور ہیں لیکن میں بهی اپنی سرزمین کی خاطر اپنی جان دے سکتا ہوں. اور میری آنے والی نسل مجھ پر فخر کرے گا”.

آج بهی بلوچ قوم حمل جیہند اور خان محراب خان کے نقش قدم پر گامزن ہیں. آج بهی بلوچستان حالت جنگ میں ہے. آج بهی بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی استحصال کی جارہی ہے اور بلوچ قوم آج بهی اپنی سرزمین کی دفاع میں اپنی جانوں کو قربان کررہا ہے۔ .

بلوچستان پر قابض قوتوں نے ہمیشہ بلوچ قوم کو دبانے کی کوشش کی ہے. بلوچوں کو تعلیم سے دور رکها بلوچوں کو روزگار سے محروم رکها اور نہ ہی دیگر انسانی بنیادی سہولیات دئیے گئے. اور بلوچوں کو ہمیشہ جاہل کا لقب دیا گیا. تاکہ بلوچوں کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ وه جاہل ہیں اور اس قابض ریاست کے بغیر وه کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں بس بلوچ سرزمین کی ساحل اور وسائل کی لوٹ مار کرنا ہے۔.

اس وقت بلوچستان کے حالات سنگین شکل اختیار کرچکے ہیں، انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے. بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی لوٹ مار کے لئے نوآبادکار لائے جارہے ہیں اور بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے. اور دوسری جانب بلوچ نسل کُشی کے عمل میں بهی تیزی لائی جارہی ہے. جس میں جبری گمشدگی سرفہرست ہے جو بلوچستان میں ہردن تیزی سے جاری ہے. اس وقت بلوچستان میں 35 ہزار سے زائد نوجوان ، طالب علم ، ڈاکٹر ، وکیل ، ادیب شاعر اور ہر طبقہ کے لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔.

بلوچوں کو انکی بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے، بلوچوں کی قومی شناخت کو ختم کیا جارہا ہے. اور جو بهی اپنے بقا اور اپنے حقوق کی بات کرتا ہے، تو اس کو سالوں سال لاپتہ کیا جاتا ہے یا انکی مسخ شده لاشیں پهینک دی جاتی ہیں. بلوچ ماں بہنیں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے کهبی پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کررہے ہیں تو کهبی ان ایوانوں میں بیٹهے حکمرانوں کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے جهولی پهیلا رہیے ہیں. لیکن ان ظالموں کو بلوچ ماوں کے آنسوو دکهائی نہیں دیتے ہیں۔

اس وقت بلوچستان ایک انسانی بحران سے گذر رہا ہے. کوئی بهی اپنے گهروں میں محفوظ نہیں ہے. اب بلوچ ماں بہنوں اور معصوم بچوں کو بهی قابض ریاست نشانہ بنا کر شہید کررہا ہے. لیکن انسانی حقوق کے عالمی ادارے بلوچ نسل کشی پر خاموش تماشاہی بنے ہیں جو بہت افسوسناک عمل ہے.

اب بلوچستان میں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا، جس میں کوئی نہ کوئی بلوچ نوجوان اور طالب علم جبری طور پر لاپتہ نہ کیا گیا ہو. اور یہ سلسلہ بلوچستان کے کونے کونے میں شدت سے جاری ہے. جس میں خاص تعلیم یافتہ لوگوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے. اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست بلوچوں کی تعلیم سے خوفزده ہے. یہ ریاست نہیں چاہتا کہ بلوچوں میں شعور اور آگاہی پیدا ہو بلکہ یہ ریاست بلوچوں کو تعلیم سے دور کرکے مذموم عزائم میں کامیاب ہونا چاہتا ہے. تاکہ بلوچوں کو جاہل قرار دے کر بلوچوں کی سرزمین کا استحصال کریں بلوچ ساحل اور وسائل کو لوٹ سکیں اور بلوچوں کو اپنے قومی حقوق سے دستبردار کر سکیں۔

لیکن یہ نا ممکن ہے، بلوچ نوجوان اپنے قومی فرائض کو اچهی طرح جانتے ہیں بلوچ نوجوان اپنی زبان اور اپنی سرزمین و قومی شناخت کی خاطر قابض ریاست کے خلاف آخری حد تک مزاحمت کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں