میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا؟ ۔محمد خان داؤد

184

میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا؟

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں بلکل وہی ہو رہا ہے جس کے لیے روسی کہاوت ہے کہ
”مجھے جس سے محبت ہے میں اسے ہی مارتا پیٹتا ہوں“
بلوچستان میں بھی جن سے محبت ہے گولی انہیں ہی گھائل کرتی ہے۔بہت سی گولیاں چلی ہیں۔ بہت سے مقتول ہوئے ہیں اور بہت سے لاشیں دفن ہو ئے ہیں یہاں کس کس کا نام لکھوں اور کیا کیا درج کروں کہ کہاں کس کو گولی نے گھائل کیا اور کہاں کون کون دفن ہوا پر ہاں کچھ ایسے مقتول ضرور ہیں جن کے ناحق قتل پر بلوچستان ایک چیخ میں تبدیل ہوا اور مشرقی بلوچستان سے لیکر مغربی بلوچستان کو یہ معلوم ہوگیا کہ کون کہاں گھائل ہوکر قبر میں تبدیل ہوا اور سرِ شام بلوچستان نے ان مقتولین کے لیے آنسو بھی بہائے اور موم بتیاں بھی جلائیں پر وہ نہیں جان پائے جن کے منھ کے قریب مائیک کر کے جب ان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ بلوچستان کہاں واقع ہے تو وہ ایک دوسرے کا منھ تکتے رہتے ہیں اور جب ان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ بلوچستان کے کسی بھی شہر کا نام بتا دیں تو جب بھی ان کی سٹی گم ہو جا تی ہے وہ بلوچستان کو اتنا بھی نہیں جانتے جتنا بلوچستان والے پاکستان کو جانتے ہیں۔جب وہ بلوچستان کو ہی نہیں جانتے بلوچستان کے شہروں کو ہی نہیں جانتے تو وہ بلوچستان کے باسیوں کو کیسے جان پائیں گے؟

اور یہ کیسے جان پائیں گے کہ بلوچستان کی کسی تنگ گلی میں کون سی بندوق بھونکی اور اس بھونکتی بندوق نے تنگ گلی میں کسے گھائل کیا اور روتی ماؤں نے رات کے شروعاتی پہروں میں کسے دفن کر دیا
یہ سلسلہ کافی سالوں سے چل رہا ہے۔

پر ہاں ان مقتولین میں کچھ ایسے مقتولین بھی ہیں جب ان کے کمزور جسموں میں بھونکتی بندوقوں کا بارود سوراخ کر کے گھسا تو وہ مرے ہوئے جسم ایک چیخ بن گئے ایسی چیخ جس چیخ کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”گونج بہ کائی کونج پریان ء جی!“
ان مقتولین کے لیے بلوچستان تو بہت رویا پر بہت دور پاکستان کو بھی معلوم ہوا کہ بلوچستان کی دھرتی پر گولی نے کسے گھائل کیا ہے۔ملک ناز کا قتل چیخ بنا۔حیات بلوچ کا قتل چیخ بنا،شاہینا شاہین کا قتل چیخ بنا اور بلوچستان نے آگے بڑھ کر اپنے پیارے بیٹوں اور بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا،بلوچستان دن میں ان مقتولین کے لیے رویا اور سرِ شام ان کے لیے آپ ہی موم بتی بن کر جلتا رہا پگلتا رہا!
یہ قتل اور یہ مقتولین تو چیخ بن گئے
سوشل میڈیا جل اُٹھا پر جب بھی روائیتی میڈیا کو خبر تک نہیں ہوئی کہ بلوچستان چیخ کیوں بنا ہوا ہے
اگر روائیتی میڈیا جان بھی چکا تھا تو جب بھی اس کی بے حسی جا ری رہی روائیتی میڈیا پر وزیر اعظم کے کتے کے ساتھ گزارا وقت تو نشر کیا گیا شیخ رشید نے کس برانڈ کا سگار پیا یہ بھی بتایا گیا پر یہ نہیں بتایا گیا کہ بلوچستان میں سرکا ری گولی اور سرکا ری بھونکتی بندوق سے کون گھائل ہوا اور کون قبر بن گیا!
جب کہ سوشل میڈیا پر سب چتائیں جلتی رہیں!
ان چتاؤں کے شعلے بلوچستان پر بکھرتے رہے
راکھ پہاڑوں سے اونچی اُوڑتی رہی
بلوچستان روتا رہا
پر روائیتی میڈیا جانتا ہی نہیں تھا کہ کہاں پر کیا کچھ ہو چلا ہے
روائیتی میڈیا جانتا تھا پر صاحب لوک یہ نہیں چاہتے تھے کہ بلوچستان کا درد ان ہواؤں کی نظر ہو جو ہوائیں اسلام آباد سے ہوکر گلگت بلتستان اور چترال تک جا تی ہیں جہاں کے باسیوں کو اس جدید دور میں بھی یو ٹیوں،کیبل اور ڈش کی عیاشی میسر نہیں اور وہ شام ہو تے ہیں اس ٹی وی کو دیکھتے ہیں جس ٹی وی پر وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی عمران خان شیروانی پہنے خطاب کرنے کا شوق فرمانے کا آرزومندتھا اور اب تو یہ ٹی ہی ان کے ہاتھوں میں ہے
پاکستانی سرکا ری ٹی وی پہلے بھی نہیں جانتا تھا کہ بلوچستان میں کیا کچھ ہو رہا ہے اور سرکا ری ٹی وی اب بھی نہیں جانتا کہ بلوچستان کی زمیں پر کیا کچھ ہو رہا ہے
بھلے تربت کے ڈپٹی کمشنر نا مانیں کہ تاج بی بی کو سرکا ری بندوق والوں نے قتل نہیں کیا
تو اس سے پہلے ہونے والے قتل کس نے کیے تھے،برمش سے ماں کو کس نے چھینا؟
حیات کا قتل کس نے کیا؟
اور اب تاج بی بی کو دن دھاڑے کس نے مقتول بنا دیا؟
یہ نہیں مانیں گے اور سرکا ری ٹی وی چئینل طالبان کی فتح تو دکھائے گا پر مقبوضہ کیا گیا بلوچستان نہیں دکھائے گا اور یہ بھی نہیں دکھائے گا کہ دن دھاڑے کس کے ہاتھوں کون قتل ہوا؟
پر بلوچستان آپ بتا رہا ہے کہ پہلے کون قتل ہوا تھا
پھر کون قتل ہوا
اور آج کون مارا گیا
اور بلوچستان یہ بھی بتا رہا ہے کہ کس نے گولی چلائی اور کس کے جسم میں وہ چلی ہوئی گولی پیوست ہو گئی اور کس کی جان چلی گئی
اور پھر بلوچستان روتا بھی بہت ہے.
ماتم بھی بہت کرتا ہے
اپنے مقتولین کے جنازوں کو کاندھا بھی دیتا ہے
دن کو دردوں کی ماری ماؤں کے ساتھ آنسو
اور سرِ شام موم بتیاں بن کر جلتا بھی بہت ہے
پھر بھی روائیتی میڈیا کا رخ اس طرف نہیں ہوتا
کیوں نہیں ہوتا؟
یہ میرا سوال نہیں یہ بلوچ شعور اور بلوچ دھرتی کا سوال ہے کہ سرکاری ٹی وی کا رخ بلوچستان کے پیوند لگے دامن کی طرف کیوں نہیں ہوتا
جس دامن میں قبریں بنتی ہیں
اور بندوق سے گھائل مائیں بیٹیاں اور بیٹے دفن ہو جا تے ہیں
اور اب تو تاج بی بی کا گھائل وجود کہہ رہا ہے
”بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہوگا
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا؟“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں