فتح کے بعد طالبان کی آزمائش (آخری حصہ) – میتھیو ایکنز

163

فتح کے بعد طالبان کی آزمائش

تحریر: میتھیو ایکنز
(آخری حصہ)

دی بلوچستان پوسٹ

سابق افغان حکومت کے وزیر صحت واحد مجروح نے بتایا کہ ’’زیادہ تر وزرا اس وقت طالبان کے زیر حراست ہیں، انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ جہاں تک محکمۂ صحت کا تعلق ہے تو اس کا 90 فیصد سٹاف فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنی ڈیوٹی پر واپس آچکا ہے‘‘۔ مگر اس وقت وزارتِ صحت بھی حکومت کے دیگر شعبوں کی طرح‘ ایک سنگین مالیاتی بحران کا سامنا کر رہی ہے اور افغانستان کے بینک فنڈز اور دیگر مالیاتی وسائل کو امریکا اور مغربی ممالک نے یکطرفہ طور پر منجمد کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں ہیلتھ کیئر کا شعبہ زیادہ تر عطیات سے چلتا ہے اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ڈونرز کی سپورٹ کا محتاج ہے۔ جن تنظیموں کے ساتھ مل کر ہم کام کرتے ہیں‘ ان میں سے زیادہ تر نے یہاں اپنے آپریشنز معطل کر دیے ہیں اور کنٹریکٹس پر کام بھی بند کر دیا ہے۔ واحد مجروح کا کہنا ہے ’’ہمیں ان سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس قدر اچانک ہماری فنڈنگ روک دیں گے۔ اس وقت صورت حال اس حد تک ابتر ہوچکی ہے کہ مجھے ہسپتالوں سے کالز موصول ہورہی ہیں کہ ہمارے پاس ایندھن، آکسیجن اور بجلی کے لیے فنڈز ختم ہوچکے ہیں‘‘۔

اگرچہ طالبان نے افغانستان کے تمام اداروں پر اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا ہے مگر ان کی قیادت حکومتی امور چلانے کے لیے زیادہ تر روایتی طریقوں کا استعمال کر رہی ہے جس میں عامر خان متقی کی سربراہی میں کام کرنے والے ’’انویٹیشن اینڈ گائیڈنس کمیشن‘‘ کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتے کمیشن نے کابل کے لویہ جرگہ ہال میں ایونٹس منعقد کرائے جن میں مذہبی علماء کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس ہال کے سٹیج کے عقب میں افغان جمہوریہ کا سابق سہ رنگا پرچم بھی بنایا گیا تھا۔ کابل میں وزارتِ امن کے دفتر میں طالبان کے ڈپٹی لیڈر سراج الدین حقانی کے چچا ‘خلیل حقانی نے افغان عمائدین کے ساتھ ملاقاتوں کا ایک سلسلہ منعقد کیا جن میں سابق حکومتی اہلکاروں اور فوجی پائلٹوں سے کہا گیا کہ وہ نئی طالبان حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اس کی حمایت کریں۔

گزشتہ ہفتے خلیل حقانی نے ایک اجتماع کی صدارت کی تو ان کے اردگرد امیریکن M4 کاربینز تھامے گارڈز کھڑے تھے۔ اس اجتماع میں کابل سے پارلیمنٹ کے ایک سابق رکن اللہ گل مجاہد بھی شریک تھے اور انہوں نے سامعین سے درخواست کی کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔ خلیل حقانی نے اجتماع سے کہا ’’ہم سب اس سب سے بڑے قانون کو مانتے ہیں جو قرآنِ مجید ہے۔ اپنے ہاتھ اٹھائو!‘‘۔ تحریک طالبان کے سپریم لیڈر کے نمائندہ خصوصی کے طور پر انہوں نے شرکاء سے بیعت کرنے کے لیے کہا جو اسلام میں ایک طرح سے اپنے امیر کی اطاعت کا حلف ہوتا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ان کی موجودگی میں متعدد افغان پاور بروکرز نے بیعت کی جن میں قندھار کے سابق گورنر گل آغا شیرازی اور سابق افغان صدر اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی بھی شامل تھے۔

طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ نئی حکومت اسلامی شریعہ کے مطابق تشکیل دی جائے گی۔ گزشتہ ہفتے کابل میں اپنے دفتر میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے طالبان ترجمان نے کہا ’’افغان عوام نے گزشتہ 20 سال کی مسلح جدوجہد میں جتنی بھی مشکلات برداشت کی ہیں‘ ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ افغانستان میں اسلامی شریعہ کا نظام اور قانون نافذ کیا جائے۔ ہمارے ہاں پانچ مرتبہ الیکشن منعقد ہوئے اور ان سب میں دھاندلی اور بدیانتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ہر الیکشن میں ایک امریکی وزیر افغانستان آتا تھا اور وہ الیکشن کے نتائج کا فیصلہ سناتا تھا۔ ہمارے پاس حکومت میں عوام کی نمائندگی اور شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اسلام کا شوریٰ کا اصول موجود ہے‘‘۔ ذبیح اللہ مجاہد اور ان کی پریس ٹیم کی پوری کوشش تھی کہ اس انٹرویو کے دوران دنیا اور افغان عوام کے سامنے اپنا ایک ایسا چہرہ پیش کیا جائے جس سے عالمی ممالک اور اپنے عوام کے سامنے ایک تعاون کرنے والی حکومت کا تاثر جائے۔ یہ تبدیلی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ 1990ء کی دہائی میں جب طالبان کی سابق حکومت برسرِ اقتدار آئی تھی تو ایک طرف افغان خواتین اور افغانستان میں بسنے والی دیگر مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے ساتھ انتہائی سخت طرز عمل اپنایا گیا تھا، انہیں سخت سزائیں دی گئی تھیں تو دوسری طرف جنگ کے دوران سویلین اہداف کے خلاف بھی تشدد کا بے رحمانہ استعمال کیا گیا تھا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے اس انٹرویو میں مزید کہا ’’ہمارے پاس بہت سے ایسے نکات ہیں جن پر ہمارے مفادات ایک جیسے ہیں اور ہم مل کر کام کر سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے ان نکات کی ایک فہرست بھی گنوائی جن میں دہشت گردی، افیون کی پیداوار، منشیات کی سمگلنگ کے علاوہ مہاجرین کا سیلاب جیسے نکات شامل تھے‘ جن پر مغربی ممالک کے ساتھ تعاون کیا جا سکتا ہے اور اس تعاون کی اشد ضرور ت بھی ہے۔

خواتین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگرچہ سکولوں اور جائے ملازمت پر طالبان کی حکومت یقینا خواتین کے لیے بعض امتیازی اور احتیاطی حدود مقرر کرے گی مگر انہیں تعلیم حاصل کرنے، ملازمت کرنے کے ساتھ ساتھ محرم کے بغیر اپنے گھر سے باہر جانے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سابق حکومت کے دور میں صرف مالیاتی کرپشن ہی نہیں‘ ہر طرح کہ اخلاقی کرپشن بھی پائی جاتی تھی۔ اگر ہم مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ حدود مقرر کر دیں گے تو لوگ اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو ملازمت یا تعلیم کے لیے بھیجتے ہوئے آزادی اور اطمینان محسوس کریں گے۔ بدھ کے روز کابل میں طالبان عہدیداروں نے اعلان کیا کہ افغانستان کی نئی اسلامی حکومت کا جلد اعلان کر دیا جائے گا اور اس حکومت میں شیخ ہبۃ اللہ اخونزادہ کو سپریم اتھارٹی حاصل ہوگی؛ تاہم اپنے انٹرویو میں ذبیح اللہ مجاہد نے بہت واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ طالبان کے ذہن میں جمہوریت پر مبنی حکومت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے نزدیک جمہوریت کے بعض اصول اسلام کے بنیادی اصولوںسے متصادم نظر آتے ہیں مثال کے طور پر جمہوریت میں مطلق حکمرانی کا استحقاق عوام کے پاس ہوتا ہے مگر اسلام میں مطلق اقتدار اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہوتا ہے اور اسلام کی الہامی کتاب قرآن مجید کے احکامات حرفِ آخر ہیں‘‘۔


بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں