افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کے گھروں پہ طالبان کا حملہ و قبضہ – ٹی بی پی رپورٹ

3608

افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کے گھروں پہ طالبان کا حملہ و قبضہ

دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

میران مزار

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد کندھار شہر کے وسط میں رہائش پذیر بلوچ پناہ گزین عبدالغنی بنگلزئی نے افغانستان میں مقیم بلوچ مہاجرین کے حالت زار پر ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “چند روز قبل درجنوں مسلح طالبان جنگجو ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور گھر کو خالی کرنے کا حکم دیا۔ ہمارے گھر میں موجود ایک گاڑی پر طالبان کے ایک ذمہ دار مولوی نصیب کامران قبضہ کرکے اپنے ہمراہ لے گئے اور اس وقت بھی ہمیں بیدخل کرنے کے بعد ہمارے گھر کو درجنوں طالبان نے اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا ہے۔”

قطر میں طالبان اور امریکہ کے مابین معاہدے کے بعد طالبان تیزی کے ساتھ افغانستان کے تمام بڑے شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے معاہدے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے تین ہفتے قبل 15 اگست کو ہی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوگئے۔ جسکی وجہ سے حکومت گرگئی، افغان صدر اشرف غنی کو عجلت میں ملک چھوڑنا پڑا اور طالبان نے اسلامی امارت کے قیام کا اعلان کردیا۔ اسکے ساتھ ہی امریکہ کا افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری مہنگا جنگی قیام اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

بھاری اسلحہ سے لیس طالبان جنگجو دارالحکومت کابل میں ہر طرف دکھائی دینے لگے، انہوں نے خالی صدارتی محل سے لیکر ٹریفک تک کا نظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ ایک ہفتے تک کابل ائیرپورٹ پر بھگدڑ مچی رہی، ہیلی کاپٹر اور جہاز مسلسل پروازوں سے بچے ہوئے امریکی فوجیوں اور امریکی فوج کے افغان معاونوں کو وہاں سے نکالنے میں مصروف رہے۔ فائرنگ اور جہازوں سے لٹک کر فرار ہونے کے واقعات میں متعدد ہلاکتیں رونماء ہوئیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور حقوق نسواں کی مختلف تنظیموں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ طالبان نوے کی دہائی کی طرح ایک سخت گیر حکومت قائم کرکے خواتین سے آزادی چھین لیں گی اور انتقامی کاروائیوں کا آغاز کرکے ایک نئے نسل کشی کریں گی۔ ان کے جواب میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان خدشوں کو رَد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اب بدل چکے ہیں۔

ایک سنگین مسئلہ جو ابتک عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی طرف سے نظر انداز ہورہا ہے، وہ افغانستان میں پناہ گزین بلوچ مہاجرین کا مسئلہ ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچ آزادی پسند مسلح گروپوں اور پاکستانی فوج کے مابین جنگ اور شدید فوجی آپریشنوں کے باعث اس وقت کثیر تعداد میں بلوچ ہجرت کرکے افغانستان میں پناہ گزین کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک رپورٹ کے مطابق محض سنہ 2006 کے فوجی آپریشن میں بلوچستان کے صرف ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے اضلاع سے پچاس ہزار سے زائد افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔

افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کو رجسٹر کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کم از کم بلوچستان کے مختلف علاقوں سے فوجی آپریشن کے سبب سات ہزار سے زائد خاندان افغانستان کے مختلف صوبوں میں پناہ لیئے ہوئے ہیں۔

ستر کے دہائی میں جب بلوچستان میں آپریشن شدت اختیار کرگئے تھے تو تقریباً اسی ہزار بلوچ افغانستان ہجرت کرکے پناہ گزین کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے تھے۔ لیکن نوے کی دہائی میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ان بلوچ پناہ گزینوں پر روزانہ کے بنیاد پر حملے شروع کیئے گئے۔ جس کی وجہ سے انہیں جان خطرے میں ڈال کر واپس آنا پڑا۔ اب تاریخی پس منظر اور طالبان و پاکستانی فوج کے مبینہ قریبی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان میں مقیم بلوچ پناہ گزین اپنے تحفظ کے پیش نظر ایک بار پھر خدشات کا شکار ہیں۔

افغانستان پر طالبان نے قبضے کے بعد جنوبی صوبے کندھار میں بلوچ پناہ گزینوں کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم از کم دو گھروں سے خواتین و بچوں کو زبردستی نکال کر طالبان بلوچ پناہ گزینوں کے گھروں پہ قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ دیگر گھروں پہ چھاپوں اور تلاشی کے بعد 4 گاڑیاں اپنے ہمراہ لے گئے ہیں۔

کندھار کے ضلع تختہ پل میں مہاجرت کی زندگی گذار نے والے عبدالولی مری نے ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “گذشتہ کئی روز متواتر موٹر سائیکل پہ طالبان جنگجو آکر ہمیں اپنے گھر خالی کرنے کا کہہ رہے ہیں اور جب ہم نے ان طالبان جنگجووں سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کس نے بھیجا ہے تو انہوں نے اپنی شناخت مولوی خلیل کے دوستوں کے طور پر کیا اور ہمیں ایک وٹس اپ نمبر بھی رابطے کیلئے دیا جو کہ پاکستان کے یوفون کمپنی کا نمبر ہے اور کہا کہ تم لوگ مولوی خلیل سے رابطہ کرو اور جلد از جلد کندھار صوبے سے نکل جاو۔”

ٹی بی پی نے ایک اور بلوچ پناہ گزین حاجی محمد جان بلوچ سے اس صورتحال پر بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ “میرے گھر میں آنے والے طالب نے اپنا نام حافظ نثار احمد بتایا اور گھر کی تلاشی کے بعد ایک گاڑی پر قبضہ کرکے اپنے ہمراہ لے گیا۔”

اس حوالے سے ہم نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ سے رابطہ کرکے انکا موقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ “اس وقت بلوچ مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد افغانستان میں مقیم ہے۔ جہاں انہیں پہلے سے ہی بے شمار مشکلات کا سامنا ہے، جن میں عالمی اداروں و افغان ریاست کی امداد، بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے علاوہ تحفظ سے محرومی سرفہرست ہے۔ اب طالبان کی آمد نے ان کی مشکلات اور بے یقینی میں نہایت اضافہ کردیا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “افغانستان کے دوسرے بڑے شہر کندھار میں مسلح لوگ جو اپنا تعارف بطور افغان طالبان کرارہے ہیں، انہوں نے باقاعدہ بلوچ مہاجرین کے خلاف منصوبہ بندکاروائی کا آغاز کردیا ہے۔ مسلح طالبان خواتین و بچوں کو گھروں سے نکال کر گھروں پر قبضہ کررہے ہیں، لوگوں کو ہراساں کررہے ہیں اور مال و املاک لوٹ رہے ہیں، یہ مسلح لوگ دیگر اشیاء کے علاوہ کم ازکم چار گاڑی قبضے میں لے کر اپنے ساتھ گئے ہیں۔”

خلیل بلوچ نے اس صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ “یہ انتہائی تشویشناک و غیر متوقع خبر ہے کیونکہ بلوچ مہاجرین افغان قوم کے مہمان ہیں، جن کی حفاظت افغانستان کی قومی و ملی ذمہ داری ہے، دنیا میں بہت کچھ بدلا جاسکتا ہے لیکن ہمسائے بدلے نہیں جاسکتے ہیں، بلوچ اور افغان قوم کے درمیان صدیوں سے برادرانہ رشتے قائم ہیں، جسے بعض قوتوں نے نقصان پہنچانے کی کوشش ہے لیکن یہ رشتے وقت کے ہر امتحان میں پورے اترے ہیں۔”

بی این ایم کے چیئرمین نے طالبان قیادت سے اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ “میں افغان طالبان قیادت سے اپیل کرتا ہوں کہ کندھار میں پیش آنے والے واقعات کی چھان بین کریں اور افغانستان میں موجود بلوچ مہاجرین کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔”

واضح رہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے سے قبل بھی وہاں موجود بلوچ پناہ گزینوں پر متعدد بار حملے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں درجنوں بلوچ پناہ گزین جان بحق ہوچکے ہیں۔ بلوچ سیاسی جماعتیں اور پناہ گزین ان حملوں کا الزام پاکستانی خفیہ اداروں اور انکے مبینہ پراکسی گروہوں پر لگاتے رہے ہیں۔ خطے کی صورتحال پر نظر رکھنے والے اب اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھاکر بلوچ پناہ گزینوں پر جان لیوا حملوں کے سلسلے میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی باہوٹ بلوچ نے أفغانستان کی موجودہ صورتحال پر ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کو طالبان کی جانب سے حراساں کرنا، گھروں سے بیدخل کرنا اور ان کے گھروں اور گاڑیوں پہ قبضہ کرنا ایک انتہائی نامناسب، غیر اسلامی اور غیر انسانی عمل ہے، طالبان قیادت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے عناصر کو روکیں جو دو برادر اقوام اور ہمسایوں کے درمیان غلط فہمی اور دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کو حراساں کرنا، بلوچستان و سندھ میں افغان مہاجرین کیلئے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔”

طالبان دو دہائیوں کی طویل جنگ کے بعد واقعی بدل گئے ہیں یا بلوچ مہاجرین کے ساتھ انکا رویہ وہی رہے گا جو نوے کی دہائی میں رہا تھا؟ شاید اس سوال کا جواب آنے والے وقت میں مل جائیگا لیکن افغانستان کی موجودہ افراتفری میں بلوچ پناہ گزینوں کے سنگین مسئلے کو نظرانداز نہیں ہونا چاہیئے اور یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ بلوچ پناہ گزینوں کے تحفظ کا اصل ذمہ دار یو این ایچ سی آر ہے۔