فیک انکاؤنٹرز ریاست کی نئی پالیسی – بدر زہری

177

فیک انکاؤنٹرز ریاست کی نئی پالیسی

تحریر: بدر زہری

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم دنیا میں موجود اس دور کا سب سے مظلوم ترین قوم ہے ان پر سفاکیت کے نت نئے طریقے آزمانے والا دنیا کا ظالم ترین ملک ہے۔

ویسے بھی بلوچستان کی سرزمین کو تجربہ گاہ بنایا گیا ہے لیکن یہ تجربہ صرف سیاسی کھیل تک محدود نہیں اس میں انسانیت سوز جبر کے تجربے بھی کیئے جارہے ہیں۔

2004 سے لاپتہ کرنے کا سلسلہ 2009 تک اپنے عروج کو پہنچتا ہے اس کے جلد بعد ایک نئی پالیسی سامنے آتی ہے جسے”مارو پھینکو ” کا نام دیا جاتا ہے جس کے تحت صرف 2011میں 380 مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ آج بھی مسخ شدہ لاشوں کا یہ سلسلہ کم مگر جاری ہے۔ اس کے بعد 2012 میں ٹارگٹ کلنگ کی پالیسی بھی متعارف کرائی جاتی ہے جسمیں بلوچ قوم کے دانشوروں کو بیچ چوراہوں پر قتل کرنے کی پالیسی بھی تیزی سے بڑھتی ہے۔

ابھی تین چار مہینے پہلے ریاست ایک نئی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جس میں لاپتہ افراد کو سی ٹی ڈی کے حوالے کرکے انہیں فیک انکاؤنٹر میں مارا جاتا ہے۔ یہ پالیسی بھی پرانے جبر کے طریقوں کی طرح زور پکڑ رہی ہے۔

ان لاپتہ افراد میں اکثر ان کو مارا جاتا ہے جن کے خاندان والوں کو یہ کہا گیا ایک دو ہفتے میں تفتیش کرکے چھوڑ دیں گے یا پھر ان کو یہ دھمکی دی جاتی ہے اگر خاموش نہیں ہوئے تو دوسرے بیٹے یا بیٹی کو اٹھائیں گے۔ یہ دھمکی کارآمد ثابت ہوتی ہے اور وہ خاندان خاموش ہوجاتا ہے۔

جن خاندان والوں نے اپنے لاپتہ شخص کی ایف ائی آر نہیں کاٹی ہوتی یا اپنا کیس وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے آرگنائزیشن یا کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم کے پاس کیس جمع نہیں کرایا ہوتا ہے انہی لوگوں کو ریاستی جابر ادارے مار کر پریس کانفرنس میں کہتے ہیں یہ دہشتگرد تھے ان کے پاس اسلحہ و بارود تھا یہ کسی بڑا واقعہ کرنے کی پلاننگ کررہے تھے۔ اس خاندان کے پاس کوئی ثبوت نہیں بچتا جو قانوناً یہ ثابت کرسکے جنہیں یہ دہشتگرد کہہ کر فیک انکاؤنٹر میں قتل کررہے ہیں اسے دراصل کچھ وقت پہلے ہی سیکیورٹی اہلکاروں نے اغوا کیا تھا۔

اب یہ سلسلہ زور پکڑتا بھی جارہا ہے حال ہی میں سی ٹی ڈی کے مبینہ کاروائیوں میں 12 کے قریب مسنگ پرسنز کو شہید کیا گیا ہے ان میں سے اکثر وہی ہیں جن کے خاندان والوں نے سیکیورٹی فورسز کی تفتیش کرکے چھوڑ دیں گے والی بات پہ یقین کیا تھا یا اس ڈر سے ایف ائی آر اور کسی انسانی حقوق کی تنظیم میں اپنا کیس درج نہیں کیا ہوتا ہے کہ کہیں وہ دوسرے بیٹے کو نہ اٹھائیں۔

اپنے خاندان سے لاپتہ ہوئے شخص سے محبت جتانے کا طریقہ یہی ہونا چاہیے کہ فی الفور ایف آئی آر درج کریں اور اپنا کیس کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم کے پاس جمع کروائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں