زہری انقلابی ماؤں کی نگری اور مزاحمت کی علامت – کوہ دل بلوچ

289

زہری انقلابی ماؤں کی نگری اور مزاحمت کی علامت

تحریر: کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زہری کسی تعریف کا محتاج نہیں، ہر حوالے سے اس علاقے کا اپنا ایک وقار و عزت ہے بلکہ ہر مثبت و محترم گفتگو میں اس علاقے کو ایک اچھی مثال کے طور پر لیا جاتا ہے، یہ علاقہ بُلند و بالا چٹان اور بنجر زمینوں کے باوجود بھی دلوں پہ راج کرنے کیلئے ایک حسین خوبصورت منظر رکھتا ہے، انجیرہ کراس، مین آر سی ڈی شاہراہ سے اُتر کر زہری نورگامہ کی جانب روانہ ہوتے ہی روح میں ایک الگ سی کیفیت اور سکون سی ملنے لگتی ہے، ایک پل کیلئے تو یہ لمحہ پوری جنت کا سیر کراکر واپس لے آتی ہیں، جب جب لاری منزل طے کر رہا ہوتا ہے تو وہاں کئی داستانوں کا ایک موٹی کتاب نظروں کے سامنے کھلنے لگ جاتی ہے، اس کتاب میں زہری کا سارا منظر بڑی خوبصورت انداز میں موجود ہوتا ہے۔ اس کتاب کے کئی پنوں پر وحشتیں بھی ہیں چیختی چلاتی قصے بھی ہیں، شرافت کے لبادے اوڑھے ہوئے اشرافیہ کے کارستانیاں بھی، اس کتاب کے ہر ورق پر اپنی کہانی خود سنا رہے ہوتے ہیں، انجیرہ کے کچے مکانات خود ایک اساطیری شکل اختیار کرچکے ہیں، جن کی ویرانی و بند درگاہیں، خالی آنگنیں،مشکیزوں کو رکھنے والے بانڈفریں ویران و خشک اور ان گھروں کی جانب ایک لکیر جیسا راستہ جس سے کئی سال ہوئے دھول کبھی نہیں اُٹھی، یہ ایک لکیر نہیں بلکہ ظالموں کے ہاتھوں ایک مظلوم خاندان کے ماتھے پر کھینچا ہوا لکیر ہے.

اس سے آگے جب لاری بڑھنے لگتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ میدان مارنے والا گھوڑا یہاں پہنچ کر بدک رہا ہے، خطی نا خیر ایک قتل گاہ ہے، اس سے ہر وہ شخص واقف ہے جنہوں نے زہری کے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا ہوا ہے، روزانہ وینوں سے نہتے لوگوں کو اتار کر گولیاں اُن کے سینے میں سرد کیا جاتا رہا ہے، ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے مگر ان میں اب تھوڑی کمی آئی ہے، بدوکُشت ایک کُشت گاہ گزرا ہے ، اس پُل کے زیر بہتا ہوا چشمہ اور اس ندی کے کنکریوں پر خون کے دھبے اس حقیقت کو مزید دلیل مہیا کرتے ہیں، گزان کو میں کچھ نہیں کہہ سکتا یہ نگری تو سینہ ٹھوک کر یہ کہہ رہی ہے کہ وہ دلجان جیسے سپوتوں کو جنما ہے، آگے بڑھتے جاؤ تو کتاب کے اوراق خود بخود پلٹتے جائیں گے، تراسانی ملغوے، بلبل، گھٹ، سُنی اور پھر شہید شاویز کا دیار نورگامہ جسے پہاڑوں میں رہنے والے مال مویشیوں پر زندگی گزارنے والے سادہ مزاج لوگ نورگُل کا لقب دیا ہوا ہے، یہاں آپ کو ہر مکاتبِ فکر کے لوگ ملیں گے، اس کتاب کے یہی وہ پلٹے ہوئے اوراق ہیں، جہاں آپ کو بھیڑ اور بھیڑیے ایک ہی نہر میں پانی پیتے ہوئے نظر آئنگے اور شکار کیلئے دوسرے علاقوں کا رُخ شب تاریک میں کرتے ہوئے ملیں گے جبکہ بھیڑ آس پاس کے باغیچوں میں گھاس کھاکر لوگوں کو اس دھوکے میں رکھتے ہیں کہ بھیڑیوں سے اُس کا کوئی واسطہ نہیں لیکن اب اس چھوٹے سے شہر کو ہم صرف ان کا مستقل پتہ نہیں کہیں گے جو قاتل ہیں ظالم ہیں بلکہ یہاں شاویز جیسے وطن کے بہادر سپوت جنم لےچکے ہیں، اسی شہر میں جہاں شاویز آزادی کا خواب کھلے آنکھوں سے دیکھتا رہا ہے۔

دوسری طرف اُس کے بہت قریب بالکل اُس کے بغل والے گھر میں دن رات فوجی کیمپوں اور سردار و میروں کے خوشامد ہوتی رہتی ہے، کیا کمال ہیکہ ایک ہی شجر میں تازہ پھل اور سڑا ہوا پھل اٹکے ہوئے ہیں اور سڑا ہوا پھل اپنا آخری دن گن رہا ہے جبکہ تازہ اور صحت مند پھل ہمیشہ کیلئے امر ہوچکا ہے جس کا خوشبو اور ذائقہ صدا رہے گا، اور یہاں جی حضوریوں کے بدلے ملے ہوئے بڑے بڑے حویلیاں، چند لاریاں اور چاپلوس گن مین ساتھ گھماکر حسین خوابوں میں خلل ڈالنے والے بھی اسی شہر میں جنم لے چکے ہیں اور شاویز بھی اسی دھرتی کا خوبصورت پھول ہے جس کی مہک نے بولان کو معطر کردیا لیکن دونوں کرداروں میں آسمان زمین کا فرق پایا جاتا ہے، شہید شاویز کا کردار ان سب کے آنکھوں میں مٹی ڈالنے کے مترادف ہے جو سرداروں اور نوابوں کے جی حضوری کرکے نہیں تھکتے۔

شاویز سوہندہ کا درد سمجھ چکا تھا، وہ جانتا تھا کہ یہ پانی میرے گھر تک پہنچتے پہنچتے کئی نجاستیں دھوکر پہنچتی ہے اور یہ سوہندہ کے چشموں سے بہتا ہوا پویتر پانی ہمارے لئے آبِ کوثر ہے ، شاویز اور امتیاز جیسے سپوتوں کا درمان اور اُن کے زخموں کا مرہم رہا ہے، اسی شہر کے آس پاس کچھ ایسے کردار بھی رہتے ہیں جن کو شاویز جیسے عظیم ہستیاں آنکھوں میں چُبتے ہیں لیکن وہ وقت دور نہیں وہ اپنے انجام تک پہنچائے جائینگے.

شہید شاویز کو جنم دینے والی ماں جب بیٹے کے شہادت کی خبر سنتی ہے تو اُسے ایک پل کیلئے یقین نہیں ہوتا کہ بیٹا اپنا حق ادا کرکے امر ہو چلا ہے، جب جب میکسم گورکی کے ناول “ماں” پڑھتا ہوں تو تخیل میں چلا جاتا ہوں کہ آیا میں اپنے سرزمین کے ماؤں کو نہیں پڑھ رہا جو ناول نہیں بلکہ ایک حقیقت ہیں میرے سامنے موجود ہیں، جب شہید دلجان کے ماں کے گود میں شہید بارگ کا لہو سے لت پت سر رکھے دیکھا تو حیران ہوا کہ اس ماں کے کلیجے میں صرف دلجان کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ نہیں بلکہ ہر اُس بیٹے کیلئے ہے جس نے اس مقدس راہ کو اپنا مقدر بنالیا ہے جو بظاہر تو کھٹن راہ ہے مگر اس راہ پر چلنے والوں کیلئے یہ صراط المستقیم ہے اور اس نگری کے ماؤں نے ثابت کردیا جو عہد انہوں نے کی تھی کہ بابو نوروز خان، سفرخان، بھاول خان، بھٹے خان اور امتیاز جیسے سپوت جنم دینی ہے سو انہوں نے جنما دیئے اور بولان و میر گھٹ کے گود میں ڈال دیئے اور اسی فہرست میں اب شامل شاویز اور آفتاب بھی ہے، جہلاوان نے بولان سے خوب مقدس مراسم نبھائیں ہیں اور اب یہ رشتہ بہت گہرائی اختیار کرچکی ہے.

نورگل کے سینے پر بہتا ہوا سوہندہ کا آبِ جو اب جہاں سے بھی گزرے گی شاویز کیلئے نازین گُن گناتی ہوئی گزرے گی، اس بہتے ہوئے پانی کو اب پاک کرنے کی ضرورت ہے اس مقدس آب کو راستے میں بہت سے غلاظتوں کا سامنا ہے اس کے کناروں پر شرابوں کے خالی بوتلیں اور دشمن کے پراکسیوں کے بندوقوں سے نکلتی ہوئی شور اُسے بےچین کرتی ہے اُن کے لاریاں یہاں دھل کر اس کو آلودہ کرتے ہیں، شاویز کے شہر میں اب اُن کیلئے سکون حرام ہونا چاہیئے جو بیٹے کے شہادت کا سُنتے ہی اُس کے ماں کے قریب پہنچتے ہی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ آپ کا بیٹا اس راہ پر ضائع ہوا بنا گور و کفن بہت دور اپنوں سے کئی دور…ایسے لوگوں کو جاکر کوئی کہہ دے شہیدوں کا رتبہ اعلیٰ ہے اُن کو بڑے شان سے وطن کے سرمچاروں کی گولیوں کے گونجوں میں بلوچوں کے قدیم سنگر بولان کے آغوش میں بڑے عزت و احترام سے سپردِ خاک کردیا گیا ہے.

ویسے تو اسی شہر میں ہر ماہ بعد کوئی نہ کوئی قبائلی جنگوں، خاندانی چپقلشوں، جائیدادوں پر لڑائی یا کسی روایتی بات و حرکت پر قتل و غارت ہوجاتے ہیں گور و کفن اور انہیں بڑے ہجوم کے ہوتے ہوئے دفنا دیئے جاتے ہیں مگر وہ چند دن تک محض یاد رکھے جاتے ہیں اُس کے بعد اُن کا نام و نشان باقی نہیں رہتا اسی علاقے میں قبرستانیں ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہیں جو مفت میں بھینٹ چڑھا دیئے گئے ہیں یا خود ایسے جنگوں میں کود کر مارے جاچکے ہیں، جن کے جنگوں کا کوئی مقصد نہیں اور اب اُن کا نام و نشان تک نہیں، مگر وطن کے شہیدوں کا ذکر ہر جگہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے مکران ساحل سے لیکر ڈیرہ غازی خان تک ہر جگہ یہ بات پہنچ چکی ہے کہ کوہستان مری کا ہنگل، زہری جھلاوان کا آفتاب و شاویز اپنے سرمچار سنگتوں کے ساتھ بولان میں دشمن کے پوسٹ پر دھاوا بول کر وہاں موجود سارے فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیئے اور جو زخمی حالت میں پائے گئے اُن کو گرفتار کرلیا گیا حتیٰ کہ دشمن اپنے ساتھیوں کے لاشوں کو اُٹھانے کیلئے بڑی تعداد میں ٹروپس منگوا لئے بڑے خوف کے ساتھ اٹھاکر لے گئے اور اپنا غصہ عام اور نہتے آبادیوں پر نکالنا شروع کردیا. یہ خبر چار سو پھیل کر ان شہیدوں کے جراّت کو سلامی دینے کا ضامن ہے ہنگل، آفتاب اور شاویز زندہ تھا زندہ ہیں اور زندہ رہینگے مفت کے موت وہ مرے ہیں جن کا جنازہ آپ لوگ روز اٹھاتے ہیں مگر وہ دفن ہوتے ہی بس دفن ہوجاتے ہیں جبکہ شہیدوں کے شہادت قوم کی حیات ہے اور وہ ہمیشہ امر ہوجاتے ہیں.

نورگُل بازار سے مشک کیلئے نکلتے ہی اس موٹی کتاب کے پنوں سے آپ کو شہیدوں کے لہو کا مہک محسوس ہونے لگے گا، شہید امتیاز اور شہید آفتاب کے گاؤں مشک بیل کے نام سے مشہور ہے جب آپ وہاں پہنچ جاؤگے تو اب کے بار سرآپ اور دھیزیری آپ کو بغل کشی کیلئے بُلا رہے ہونگے بشرطیکہ آپ میں وہ وطن پرستی اور قوم دوستی موجود ہوں جو شہید امتیاز اور آفتاب میں تھا، جب آپ سرآپ کے قدیم قبرستان کے قریب پہنچ جاؤگے تو آپ کو آفتاب کے وہ پسینے کی مہک ضرور چھو کر گزرےگی جو اُس کے جسم سے بولان مارواڑ حملے میں محنت و مشقتوں میں نکلا ہوگا، اب تو یہاں آبِ جُو بھی نہیں رہا ورنہ کوئی بھی خانہ بدوش آفتاب کے نگری سرآپ سے پیاسا نہیں جاتا۔

آفتاب کا یہ شہر شاید سرآپ اس لئے ٹھہرا ہے، یہاں پانی کا کسی دور میں بڑا ذخیرہ ہوا کرتا تھا بڑے بڑے بہتے ہوئے چشمیں یہاں ہوتے تھے اور ندی ہروقت صاف و شفاف پانی سے بہتی رہتی تھی، بیشک شہروں اور قصبوں کا نام تاریخ میں تب رقم ہوتے ہیں جب اس جگہ کوئی عظیم انسان نے جنم لیا ہو جس کا کردار بہت حسین اور اعلیٰ ہو جیسے آفتاب نے اپنے کردار سے جھلاوان زہری کے ساتھ اپنے گاؤں سرآپ کے نام کو بھی تاریخ کا حصہ بنا دیا اور آپ چند قدم آگے بڑھوگے تو آفتاب کا وہ درس گاہ بھی آپ کو ملےگا جس میں اُس نے اپنی تعلیم کی بنیاد رکھی، بقول ایک علاقائی سنگت کہ اے آفتاب آپ وہی آفتاب تھے ناں.! جو سرآپ کے دوسرے لڑکوں سے مختلف رہتے تھے وہ تو کبھی کبھی جھنڈ کے شکل اختیار کرکے کہیں نکل جاتے تھے مگر آپ اُن میں نظر نہیں آتے، شاید فطرت نے تجھے ازل سے ایک نایاب تحفہ بناکر بولان کیلئے الگ مزاج دے رکھا تھا، آپ کے بابا کے دکان پر جب رش ہوتا تو آفتاب اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہوا نظر آتا، شاید باشعور اور تعلیم یافتہ فیملیوں میں یہ خاصیتیں زیادہ ہوتی ہیں، اُن کے بچوں میں ایک انقلاب بچپن سے موجود رہتی ہے بس اسے نکھارنے کیلئے رہنمائی کی چنگاری مہیا کیا جائے اور آفتاب و شاویز کو دلجان و دلوش نے وہ چنگاری مہیا کردی.

آفتاب ہر مثبت اقدام میں اپنا اولین حصہ ڈالتا ہوا نظر آتا تھا، زہری پبلک لائبریری کی ہر کتاب اُس کے علمی جستجو کا گواہی دیتے رہنگے، ہر مہذب اور باشعور نوجوان آفتاب کے گفت و شنید کو کبھی بھی بھول نہیں پائے گا، اُس کے رہنمائی کا انداز بھی بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا اپنے تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے آفتاب نے جہاں جہاں بھی قدم رکھا وہاں اس قوم کے نوجوانوں کیلئے خدمت کرنے کا عزم کرتے ہوئے نظر آیا، بلوچ اسٹوڈنٹس کے مسائل اپنے اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے ذریعے حل کرتے ہوئے نظر آتا تھا، حتیٰ کہ اُسے اپنے پسماندہ علاقہ زہری کا بھی علم و عملی حوالے سے غم کھائے جارہا تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے اس نگری کا زمہ صرف آفتاب نے اُٹھا رکھا ہے، بچوں کے پڑھائی پر اصرار، اپنے بڑے اور بزرگوں کا سرداروں اور میروں کے غلامی میں مگن زندگی پر تبصرہ، کتاب دوستی اور کتابوں میں دوسروں کو کود جانے کی باربار تلقین، نوجوانوں کو کتابیں مہیا کرنا انہیں مطالعہ کرنے پر آمادہ کرنا، ادب اور شاعری پر کام کرنا اور اس پر کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا حتیٰ کہ آفتاب نے چھوٹے چھوٹے سیاسی سرکلز شروع کرنے کا بھی ارادہ کر لیا تھا مگر ان زمہ داریوں کے علاوہ ایک عظیم زمہ داری وطن اور راج کی آزادی کا ہے اُسے نبھانے کیلئے بولان محاذ پر پہنچ جانا بھی ضروری تھا، زہری پبلک لائبریری کے ہر کتاب نے آفتاب کے اُنگلیوں کا لمس اپنے پنوں میں پیوست کیا ہے۔ آفتاب نے ان کتابوں کو اور ان کتابوں نے آفتاب کے آنکھوں کو پڑھا ہے اب اس لائبریری میں آتا جاتا ہر نوجوان محض آفتاب سے ملاقات کرکے واپس ہولینگے.

آفتاب اپنے عظیم اور انقلابی ماں سے ہر وقت اس بات پر تذکرہ کرتا رہتا کہ “او لُمہ ای نا مار افٹ وتن نا مار اُٹ” اے ماں میں آپ کا نہیں اس دھرتی کا بیٹا ہوں، ہاں ماں آپ اتنا تو کرسکتی ہو کہ اپنا ایک بیٹا وطن کے حوالے کرسکتی ہو، ماں آپ مجھے جانے سے نہیں روکنا بلکہ محاذ پر جاتے وقت مجھے دعائیں دینا تاکہ ان کے صدقے میں دشمن کے ہاتھ نہ آجاؤں، ماں آپ کو تو معلوم ہے اب ریاست ہمارے بلوچ خاتون لیڈر کریمہ کو بھی نہیں بخشا اب تو ہمارے عزت و عصمت پر بات آگئی ہے، ماں آپ کو معلوم ہے مکران میں ان ظالموں نے ایک بلوچ خاتون کو بھی بے دردی سے قتل کردیا برمش جیسی معصوم کو بھی زخمی کردیا برمش کا درد راج کے دلوں میں تازہ تھا کہ ایک اور برمش کو ماں سے یتیم کردیا گیا، ماں آپ بہت اچھی ماں ہو جب میں محاذ پر نکل جاؤں تو میرے جانے کی خبر کسی کو بھی نہیں ہونی چاہیئے حتیٰ کہ ہمارے عزیز و اقارب کو بھی نہیں.

آفتاب اور اُس کے انقلابی ماں کا مکالمہ بھی ایک ناول کو حقیقت میں بدل دینگے اگر اس کو کسی انقلابی ورثے کا حصہ بنا دیا جائے، آفتاب بیٹا آپ اب آجاؤ ہم کسی کے ذریعے کینٹ میں بات کرینگے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا لیکن سامنے کون ہے ایک باغی، اس سماج سے باغی، ان روایتوں سے باغی، اس معاشرے سے باغی، انقلاب دوست، آزادی پسند اور نڈر آفتاب ہے کہتا ہے ماں مجھ سے بوٹ اُٹھانا نہیں ہوتا بہتر ہے وطن کے دفاع کیلئے بندوق اُٹھاکر جدوجہد کروں اور شہادت کی موت پاؤں یہ غلامی مجھے ہرگز قبول نہیں میں یہاں واپس آنے کیلئے نہیں آیا ہوں، ماں تو ماں ہی ہوتی ہے دنیا کا سب سے بڑا ماہر نفسیات ماں ہی تو ہے جو اولاد کے باتوں سے سمجھ جاتی ہے کہ بیٹے کے زہن میں اس وقت کیا چل رہا ہوتا ہے۔ اس لئے ماں پھر آفتاب کو واپس آنے کی تلقین نہیں کرتی ہے کہیں آفتاب رابطہ کرنا ہی ترک نہ کردے، آفتاب فون پہ بات کرتے ہوئے کہتا ہے ماں جس کے ساتھ میرا رشتہ ہوا ہے اُسے کہہ دو کہ اب آپ آزاد ہو کسی اور جگہ شادی کر سکتی ہو میں واپس نہیں آونگا، جبکہ آفتاب کے شہادت کی خبر سنتے ہی آس پاس کے لوگ آفتاب کے گھر پہنچ کر کئی ایسے جھوٹ گھڑتے ہیں کہ آفتاب تو آنا چاہتا تھا مگر اُسے آنے نہیں دیا جارہا تھا اس سفید جھوٹ کو آفتاب کا وہ تصویر ایک لمحے میں توڑکر بکھیر دیتا ہے جس میں آفتاب آزاد وطن کا بیرک اونچا کرتا ہوا نظر آتا ہے، دشمن پر حملے میں پہلے دستے کا انتخاب وہ لوگ نہیں کرتے ہیں جو واپسی کا سوچتے ہیں.

میں بحیثیت ایک زمہ دار ادنیٰ سا لکھاری جسے یہ زمہ داری شہید میرل نثار اور شہید امتیاز نے بی ایس او آزاد کا ایک قلم سونپ کر دیا تھا کہ آفتاب جیسے کرداروں پر لکھنا ہے، میں اس قلم کی روانی کبھی تھمنے نہیں دونگا میں اس زمہ داری کے توسط سے یہ التماس ان سب قاریوں سے کرونگا جو کوہ دل کے آرٹیکلز کو پڑھتے ہیں یہ پیغام آفتاب کے شہر سرآپ میں رہنے والے تخریب کاروں کو پہنچا دینا جو میں آج قلمبند کرچکا ہوں، کافی عرصہ گزر جانے کے بعد اس زمہ داری کا احساس آفتاب، شاویز اور ہنگل مری کی شہادت نے مجھے دلایا تو قلم اُٹھاکر بیٹھ گیا کہ اس قلم کے نوک کو زنگ نہیں لگنا چاہیئے، اس میں اپنے دل کا لہو بھرکر بھی لکھنے کا عمل جاری رکھنا ہے.

یہی وہ گاؤں ہے جہاں آفتاب کا جنم ہوا تھا، اسی گاؤں میں چند دن قبل سلام نامی شخص کو محض اس لئے گولی مارکر ہلاک کردیا گیا کہ وہ اپنے بھیڑ بکریوں کو سنبھال نہیں سکے، یہاں کے تخریب کاروں کو جاکر کہہ دو کہ آفتاب کی شہادت تمہیں اس لئے غلط محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ جاہلانہ جنگ نہیں لڑا، بےمقصد اور احمقانہ جنگ نہیں لڑا، وہ کبھی منشیات فروش نہیں تھا وہ اس گاؤں کے باقی جوانوں کی طرح نہیں تھا جن کے کردار پر کئی کالے دھبے ہیں آفتاب روشنی تھا، آفتاب وہ چراغ تھا جو اب کبھی نہیں بجھےگا اس کی فروزاں پورے بلوچستان کو روشنی مہیا کرےگا، آفتاب غریبوں کا ہمدرد تھا ضرورت مندوں کا کمک کار تھا، دوسروں کا درد محسوس کرنے والا باشعور نوجوان تھا اس لئے تمہیں آفتاب کا فیصلہ غلط لگ رہا ہے، کاش میں آفتاب کے ماں سے مل پاتا تو اُسے کہتا کہ آپ کے گھر کے نکڑ میں بیٹھ کر چند لوگ جو غلط بیانی کر رہے ہیں وہ اب اپنے لئے آفتاب کے گاؤں میں زمین تنگ محسوس کر رہے ہیں، آفتاب کئی چہروں سے پردہ اُٹھا چکا ہے.

زہری میں کینٹوں پر حاضری اب ایک رسم بن چکا ہے شاویز کو بھی یہ بتایا گیا کہ آجاؤ کینٹ کا درگاہ آپ کیلئے کھلا ہے لیکن شعور ایسے بزدلی پر آمادہ نہیں ہونے دیتا ہے وہ بھی آفتاب کے جیسا انکار کرتا ہے کہ میں یہاں کینٹوں کے خاک چھاننے کیلئے نہیں آیا ہوں مجھے میرے مشن پہ قائم رہنا ہے، ایسے تھے میرے دھرتی کے سپوت ان شہیدوں کیلئے جو جھوٹ گھڑی جا رہی ہے یہ علاقہ والوں کی اپنی ایک ناکام کوشش ہے جو اُن کا مکرو چہرہ ظاہر کر رہا ہے، شہید شاویز ایک پُرمہر اور وطن کا سچا سپاہی تھا اُس نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کردیا ہمیں فخر اس بات کا ہے کہ عظیم ماؤں کے بیٹوں نے اپنے جراّت و دلیری سے لڑا دشمن کے ایک اہلکار کو بھی نہیں بخشا پوسٹ پر موجود سارے اہلکاروں کو یہ سبق سکھاکر شہید ہوئے کہ یہ مقدس وطن اغیار کو برداشت نہیں کرسکتا، فدائینوں کی طرح دشمن کے کمین گاہوں میں گھس کر اُن کو نیست و نابود کردیا، ایسے ہستیوں کی قدر وہ لوگ کیا جانیں جو بھیڑ بکریوں گلے میں مالاؤں پر جنگ چھیڑ کر کئی انسانوں کو قتل کی راہ تک لے آئے.

کوہستان مری ہمیشہ دانشوروں کے گفتگو میں گوریلا جنگجوؤں کا مرکز ٹھہرا ہے انگریز سے لیکر ریاست پاکستان کے بلوچستان پر قبضے تک مریوں کا بغاوت اپنا بُلند و بالا تاریخی حیثیت رکھتا ہے، مری خانہ بدوشوں نے جب آزادی کے جدوجہد میں شامل ہونا شروع کیا تو ریاست کے رونگھٹے کھڑے ہونے لگ،ے انہی جنگجو گوریلاؤں میں سے ایک ہنگل مری بھی تھا، جو برسوں سے راہِ آزادی کا راہی تھا ہمیں فخر ہونا چاہیئے کہ کوہلو کاہان کا سرمچار زہری کے آفتاب و شاویز کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر آزادی کے تحریک کو پرواں چڑھاتے ہوئے شہید ہوا یہ ہمارے ایک ہونے کا واضح ثبوت ہے ہمیں توڑ کر الگ الگ دھڑوں میں زبان و جغرافیہ کا تفریق سامنے رکھ کر تقسیم کرنے والے اب جان لیں کہ بلوچ کو اب توڑنا ناممکنوں میں شمار ہوچکا ہے، کس کو خبر تھی کہ کوہلو کاہان کا مری زہری کے آفتاب و شاویز سے مل کر دشمن سے اس لئے لڑےگا کہ بلوچستان سے اب تم کو نکلنا ہوگا ورنہ بلوچ مزاحمت کار نوجوانوں کی ضرب تمہارے لئے شکست ثابت ہوگی، انقلابی مائیں بانجھ نہیں ہوئے ہیں، بلوچستان کے کونے کونے میں بہادر سپوت جنم دے کر بولان و مکران محاذ کے گود میں ڈال دینگے امید ہے ہر بلوچ ماں شہید رضا جہانگیر عرف شہ مرید کی ماں بن کر بیٹوں کے شہادت کے دنوں کو اُن کے شادی کا دن قرار دے گی، اور ہر ماں شہید آفتاب کے ماں جیسی شعور اور ہمت و جراّت رکھنی والی عظیم اور راز دار ماں ثابت ہوگی.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں