بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری، خضدار سے لاپتہ نوجوانوں کیلئے کمپئین

254

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4336 دن مکمل ہوگئے۔ ایکٹوسٹ ایڈوکیٹ خالدہ بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔ جبکہ لاپتہ طالب علم رہنماء ذاکر مجید بلوچ کی والدہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

لاپتہ افراد کے کیمپ سے ماما قدیر بلوچ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او آزاد کے سابق وائس چیئرمین ذاکر مجید کو اس مہینے 8 جون کو گیارہ سال مکمل ہونگے جو لاپتہ ہیں آٹھ سال مکمل ہونے پہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہر کیا جائے گا۔

خیال رہے ذاکر مجید کے لواحقین اور بی ایس او آزاد کے کارکنان کے مطابقہ ذاکر مجید 9 جون 2009 کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے مستونگ کے علاقے پڈنگ آباد سے دیگر دو ساتھیوں سمیت اس وقت حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جب وہ دیگر دو دوستوں کے ہمراہ مستونگ جارہے تھے تاہم دیگر دونوں کو بعدازاں چھوڑ دیا گیا جبکہ ذاکر مجید تاحال لاپتہ ہیں۔

ذاکر مجید کی بازیابی کے لئے اس کی بہن فرزانہ مجید احتجاج کرتی آرہی ہے۔ وہ بھوک ہڑتال پہ بیٹھنے کے علاوہ کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا بھی حصہ تھی۔

ذاکر مجید کی والدہ ماجدہ نے بھی اس موقع پہ تمام سیاسی و سماجی کارکنوں سے اپیل کی ہے وہ 8 جون کے احتجاجی مظاہرہ میں شریک ہوکر ذاکر مجید کی بازیابی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

انہوں نے اپنے مختصر پیغام میں خاص طور پر بی این پی کے سربراہ اختر مینگل اور دیگر قوم پرستوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کے بیٹے کی بازیابی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

اس موقع پر ایڈوکیٹ خالدہ بلوچ نے کہ انہیں جبری لاپتہ افراد کے کیسز کے حوالے سے عدالت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عدالت ہم سے پوچھتی ہے کہ ہم کس قانون کے تحت مقدمہ لڑ رہے ہیں تو اس پر ہم لاجواب ہوجاتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے کوئی قانون سرے سے موجود ہی نہیں اگر پارلیمان میں اس حوالے سے کوئی قانون سازی ہو تو وکلا کو جبری لاپتہ افراد کے کیسز کی پیروی میں آسانی ہوگی۔

دریں اثںاء خضدار کے رہائشی لاپتہ نوجوانوں آصف بلوچ اور رشید بلوچ کے جبری گمشدگی کیخلاف سماجی رابطوں کی سائٹ پر کمپئین چلائی جارہی ہے جو کل رات 12 بجے تک جاری رہے گی۔ آصف بلوچ اور رشید بلوچ کو 31 اگست 2018 کو نوشکی سے اس وقت فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا جب وہ زنگی ناوڑ کے مقام پر پکنک منارہے تھے۔

اسی مقام سے دس افراد کو حراست میں لیا گیا جن کی زیر حراست تصاویر بھی وائرل ہوئے تھیں تاہم بعد ازاں مذکورہ افراد کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ مذکورہ افراد کو مختلف اوقات میں رہا کیا گیا تاہم آصف اور رشید تاحال لاپتہ ہیں۔