بلوچستان تو اس کے لیے ابھی رویا بھی نہیں – محمد خان داؤد

162

بلوچستان تو اس کے لیے ابھی رویا بھی نہیں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

نہ چا ہتے ہوئے بھی اسے بلوچستان سے جانا پڑا۔ وہ نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ بلند پہاڑوں کے سائے میں رہنا چاہتی تھی۔ وہ ان پہاڑوں کے میدانوں میں دوڑنا چاہتی تھی جو پہاڑ اسے اپنے اور بلاتے تھے۔وہ ان چشموں میں پیر بھگوئے اس سورج کو غروب ہوتا دیکھنا چاہتی تھی جس سورج کو طلوع ہو تے اس کا اس بات میں اور ایمان بڑھ جاتا تھا کہ”صبح ہو گی“اُمید بھری صبح،سرخ صبح،نئی صبح،انقلاب کی صبح۔

وہ کجھیوں کے ان سائے میں بیٹھنا چاہتی تھی جس سائے میں عجیب سی اپنائیت تھی۔ وہ اس دھرتی پر ننگے پیر چلنا چاہتی تھی جس سے وہ مٹی ان خوبصورت پیروں کو دھول آلود کر دے۔ وہ جیسے ہی اپنے حسین پیروں سے اپنے جوگر اتار کر دھرتی پر پیر دھرتی تو دھول اُڑ کر ان خوبصورت پیروں سے بغلگیر ہو جاتی۔

وہ شہیدوں کی میراث دھرتی سے دور نہیں جانا چاہتی تھی۔کیوں کہ یہ بس دھرتی نہیں تھی۔یہ تو اس کا وطن تھا۔جیون تھا،جیون جیسا دیش تھا۔اس دیس میں بس پتھر نہ تھے،پر ان پتھروں کے نیچے کچھ امانتیں بھی تھیں۔محبوباؤں کی امانتیں،ماؤں کی امانتیں!
اس دیس میں بس بلند و بالا پہاڑ نہ تھے
پر اس دیس میں پہاڑوں سے بھی اونچی ان شہیداء کی قبریں تھیں
جو دیس کو مدلل ہونے نہیں دیتے
کیا اس دیس میں بس وہ سفید پتھر تھے جن پتھروں کو برف نے ڈھک دیا تھا؟

اس دیس میں وہ سرخ پتھر بھی تھے جن پتھروں پر دیس کے لیے گولی کھاکر دیس کے جواں مرد بیٹے پہاڑوں پر پڑے پتھروں کو سرخ کر گئے تھے۔
وہ اس دیس سے نہیں جانا چاہتی تھی۔
اسے ان پتھروں سے پیار تھا جو خون آلود تھے جو سرخ تھے
کتنی برستی بارشوں نے بھی ان پتھروں کی لالی کو نہیں دھویا
کتنی برف باری نے بھی ان پتھروں کی سرخی کو نہیں ڈھکا
ہما رے لیے تو بس بلوچستان اک دھرتی ہے پر ان کے لیے بلوچستان اک وطن تھا۔
اور وطن کے حلالی فرزند اپنا وطن نہیں چھوڑتے،وہ نہیں بھا گتے،وہ نہیں جاتے،وہ راہ کا پتھر بن کر دھرتی میں ٹھہر جا تے ہیں،وہ بھی تو یہی چاہتی تھی کہ وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑا پتھر بن جائے اور برستی برف سے ڈھک جائے،وہ بھی تو یہی چاہتی تھی کہ وہ پہاڑوں کے دامنوں میں پڑا پتھر بن جائے اور برستی بارش اسے ہر بار دھوتی رہی۔وہ بھی تو یہی چاہتی تھی کہ وہ،وہ سنگِ میل بن جائے جس سنگِ میل سے وطن کی جدو جہد شروع ہو تی ہے،وہ چاہتی تھی وہ پتھر ہی بن جائے پر دیس سے دور نہ جائے
پر نہ چاہتے ہوئے بھی اسے جانا پڑا۔

بانک کریمہ کی ماں کہتی ہے کہ جب بانک جا رہی تھی تو میرے بلوچی اشعار اسے روک رہے تھے اور وہ اپنی بھیگی آنکھیں دوسری طرف کر کہ کہہ رہی تھی
”اماں میں ایسے الفاظ سے اپنا دامن چھڑا کر نہیں جا سکتی!“
جب شاید بانک کریمہ کے پاس گیبریل گارشیا مارکیز کے یہ الفاظ ہواؤں میں اُڑ کر آئیں ہوں کہ
”ہم نہیں جائیں گے
یہ ہماری جنم بھومی ہے
اب تک ہمارا یہاں کوئی نہیں مرا۔ جہاں کوئی دفن نہ ہو۔وہ جگہ اپنی نہیں ہوا کرتی“

پر وہ جگہ تو اس کی اپنی تھی۔وہ ایک کیا اس کی ساتھ پشتوں،نسل در نسل اور اس سے بھی آگے کی روحوں کی جنم بھومیوں کا یہ وطن تھا اور مرنا کیا جو بھی دیس کے لیے مرتا وہ بانک کا اپنا تھا
اور کیا ان سرخ پتھروں والی دھرتی پہ اس کا کوئی نہیں مرا تھا؟
کیا ان پتھروں کے نیچے اس کا کوئی دفن نہیں تھا؟
کیا ان پہاڑوں کی چوٹیوں پر کوئی ایسا نہ تھا جو اس کا اپنا تھا؟
کیا ان پہاڑوں کے دامنوں میں کوئی ایسا نامعلوم اور معلوم ایسا نہ تھا جس سے اس کا کوئی رشتہ رہا ہو۔
وہ دیس کی وشال دھرتی تھی اور اس دھرتی پر دیس کے لیے جان دینے والے سب اس کے اپنے تھے
تو وہ دیس چھوڑے کیوں جا تی؟
وہ نہیں جانا چاہتی تھی۔

جن پتھروں کے نیچے اپنے دفن ہو ان پتھروں سے محبت ہو جا تی ہے
جو سورج جا تے جا تے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑے پتھروں کو اور گھیرا سرخ کر جائیں اس جا تے سورج سے محبت ہو جا تی ہے۔
جو برستی بارش لال لہو سے رنگے پتھروں کو اور مزید لال لہو رنگ کر جائے ان بارشوں سے محبت ہو جا تی ہے
جو برستی بارش برستی رہے اور اس سے ہر چیز ڈھکتی رہے وہ بارش سب چیزوں کو سفید چادر میں ڈھک دے پر شہیدوں کی قبروں کو،سرمچاروں کے پیروں کے نشانوں کو اور دیس کے درد میں اپنے سینے پر بارود کی بو ُ کو سہنے والے سرخ پتھروں کو سفید رنگ سے نہ ڈھکے اس سفید برف سے بھی محبت ہو جا تی ہے
تو اسے تو اس دیس کی ہر ہر چیز سے محبت تھی
ماں کی لولی سے لیکر
بلوچی بولی تک
دیس کی محبت میں لکھی کتابوں سے لیکر
ان چلتے قدموں تک جو دیس کی محبت میں اُٹھے اور ان کے نشان آج بھی ان مٹ ہیں!
اب سوال یہ ہے کہ جب کریمہ کہیں نہیں تو وہ کہاں ہے؟
اس کا جواب وہ کرُدش شاعر دے رہا ہے جو دیس سے محبوبہ سی محبت کرتا تھا
”کریمہ!سردی کی گلابی گلابی سہ پہر میں
کریمہ!دیس میں برستی بارشوں میں
کریمہ!سفید برف کے گالوں میں
کریمہ!ابھرتے سرخ سویرے میں
کریمہ!سورج کی لالی میں
کریمہ!گلاب کے پھولوں کی نرم سانسوں میں
کریمہ!دیس کی شاموں میں
کریمہ!تاروں کی جھرمٹ میں
کریمہ!دیش کی وسعتوں میں
کریمہ!دھرتی کے دامن میں
کریمہ!دیس کی ہر صبح میں
کریمہ!سرمچار کے دل میں
کریمہ!ہر جگہ
کریمہ!ہمیشہ ہمیشہ کے لیے“

آج بانک کریمہ!دیس میں ایک آنسو بن کر ٹھہر گئی ہے جہاں مسافر پرندے پانی پینے آتے ہیں
بلوچستان اپنی بیٹی کے المناک موت پر رویا بھی نہیں
بلوچستان اپنی بیٹی کے لیے کب روئیگا؟
یہ میں نہیں وہ مسافر پرندے پوچھ رہے ہیں
جو بہت دور سے آتے ہیں
اور کریمہ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاتے
اپنے پنکھ کریمہ کی نظر کرتے ہیں اور یہی رُک جا تے ہیں
دل کے درد کی طرح
آنکھ میں آئے آنسوؤں کی طرح۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں