شیرا ایک گم نام سرمچار – بیبرگ بلوچ

786

شیرا ایک گم نام سرمچار

تحریر: بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہندوستان کی جنگی آزادی کے ایک نام رام پرساد بسمل ایک جگہ کہتے ہیں “یہاں تک کہ اگر مجھے اپنی مادر وطن کی خاطر ہزار بار موت کا سامنا کرنا پڑے تو بھی مجھے افسوس نہیں ہوگا۔ اے خداء مجھے ہندوستان میں ایک سو جنم دے، لیکن مجھے یہ بھی ہمت عطا کریں کہ میں ہر بار مادر وطن کی خدمت میں اپنی جان قربان کردوں۔”

وطن سے محبت تمام تر محبتوں سے عظیم تر ہے یہ محض کوئی جذباتی کلمہ ہوتا گر ہم نے ہزاروں لوگوں کو اپنی دھرتی پر کٹتے مرتے نا دیکھا ہوتا نا سنا ہوتا نا پڑھا ہوتا وطن کی محبت میں شہہ مرید آج اپنے حانی سے دور دھرتی کی دفاع میں سروں کی قربانی دے رہے ہیں۔ ان ہی میں ایک مہربان مخلص اور سادہ مزاج سرمچار صمد زہری عرف شیرا تھا-

شیرا جس ماحول میں پلا بڑھا، وہ ماحول فرسودہ قبائلی نظام و مذہبی جہادیوں کے لئے سازگار تھا ، یہاں قبائلی جنگوں کے نام پر بھائی بھائی کے خون کا پیاسہ تھا – لوگ بے موت مارے جاتے پر نا مارنے والے کو علم تھا نا مرنے والے کو کہ وہ کس گناہ میں اس گھپ اندھیرے میں وحشت کا شکار بن رہے ہیں ، یوں مانیں یہاں محلے آباد کرنے کے بجائے قبرستان آباد کرنے کا رواج قائم تھا-

یہیں سے ایک سرمچار جو شاہموز و ملغوے کے دامن سے سفر شرورع کرکے ایک عظیم قومی سوچ و نظریہ کے تلاش میں بلوچ لبریشن آرمی کے کیمپ پہنچ جاتا ہے ، صمد نے یہ ٹھان لی کے وہ اس کھٹن زدہ معاشرے کو ایک ایسی خوبصورت صبح سے روشناس کرائے گا جہاں جائداد او سردار کی غلامی کے لئے بھائی بھائی کے خون کا پیاسہ ہونے کے بجائے ایک عظیم قومی سوچ کو لیئے وطن کی آزادی کی جہدو جہد میں شامل ہوں-

صمد نوروز خان کے اس لشکر کو پھر سے زہری کے پہاڑوں میں آباد کرنے نکلا تھا، گمنامی میں شیرا اپنے دھرتی کی دفاع کرتے آخر کار امیر اور گزین کے ساتھ 7 اپریل کو دشمن سے مقابلہ کرکے ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتے ہیں، اس کی شہادت پر ایک لوری گائی جاتی ہے اگر شیرا پھر سے لوٹے تو وہ پھرسے پارود شور کی جانب محو سفر ہونگے شیرا دھرتی کا مخلص و مہربان بیٹا ہے، وہ جتنی بار جنم لے گا ہر بار اس دھرتی کی دفاع میں قربان ہونے کے تیار رہیگا-

گمنامی میں عظیم کارنامہ انجام دینے والے مخلص بہادر پر مہر سرمچار زہری تراسانی کے بے پرواہ ہجوم سے نکل کر پارود کے دامن میں عاشقان وطن کے ہمرا بہادری سے دشمن کے سامنے سینہ تانے لڑنے والا شیرا جس نے امیر دلجان حئی جاوید دلوش کے ساتھ دھرتی پر مہروان قربان ہوئے اور بابو نوروز کی مزاحمت کو زہری میں زندہ کردیا صمد جیسے سرمچار تنظیم کو قسمت سے ملتے ہیں ، جو اپنے گھر بار سب سے بے پرواہ ہر طرح کے سختیوں کے باجود تظیم کے ہر کام کو نیک نیتی سے انجام دیتے ہیں صمد ہر وہ سرمچار ہے جو مخلصی سے اپنا کام بولان تا شور حب چوکی تک انجام دے رہا ہے-

شیرا امیر گزین مسلسل جنگ کے بعد اپنے تنظیم کے دوستوں اور اپنے کیمپ کے دفاع میں جام شہادت نوش کرتے ہیں، وہیں سے امیر الملک اس آخری گولی کا فلسفے کا بنیاد رکھتا ہے، وہیں سے شیرا کا دوست یار دلجان اپنے سینے پر قوم کے بہادر جنگجو ہونے کا انعام اپنے سینے پر لئے ایک نئے حوصلے عزم و جنگ کے جانب رواں ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔