کوئٹہ: بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

100

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4265 دن مکمل ہوگئے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ، سندھ کے صدر اسد بھٹو، بلوچستان کے صدر ہدایت اللہ بلوچ، ڈاکٹر عطاء الرحمٰن اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کے بلوچ نوجوان ہمت کے کندھوں پر شعور اور آگاہی بٹھاکر رد انقلابیوں کے جا بہ جا بچھائے گئے کانٹوں سے لہولہان سہی مگر دہن کے پکے اور من کے آتش سے روشنی پاکر اپنے عظیم مقصد کے حصول کیلئے جان ہتھیلی پر رکھ کر پرامن جدوجہد رواں دواں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک فرد کے چند اٹھتے قدم ایک بڑی قوم کو منزل کے قریب لانے میں تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کی تاریخ بارہا یہ ثابت کرچکی ہے کہ تبدیلی ایسے خود آگاہ اور بلند ارادوں کے مالک انسان ہی لاتے ہیں۔ انسانی خون کے پیاسے درندے کے دانت کھٹے کردیئے ہیں اور پوری دنیا کو باور کرایا ہے کہ اس درندے سے پہلو تہی سے اس خطے میں امن و خوشحالی ممکن نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کوہلو میں پاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹر گذشتہ تین دنوں سے آپریشن کررہے ہیں جہاں لوگوں کے گھروں کو جلایا جارہا ہے جبکہ ان کے مال مویشیوں کو لوٹاں جارہا ہے اسی طرح کولواہ میں فوجی بربریت کا آغاز کیا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاران میں آپریشن کرتے ہوئے پانچ نوجوانوں کو حراست میں لیکر لاپتہ کیا جاچکا ہے جبکہ پنجگور سے چار افراد کے جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اسی طرح طالب علم سید حاصل کو اوتھل زیرو پوائنٹ سے غائب کیا گیا جن کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان لوگوں کو بازیاب کرنے کی بجائے اس فہرست میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہا ہے، حکومت دنیا کو دکھانے کیلئے کچھ لوگوں کو رہا تو کردیتا ہے لیکن دوسری جانب اس زیادہ تعداد میں لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے۔