ذاکر مجید ایک سوچ – بجار بلوچ

522

ذاکر مجید ایک سوچ

تحریر: بجار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج ہم بات کر رہے ہیں اُس عظیم شخصیت کی جو جسمانی طور پر ہمارے ساتھ تو نہیں زندانوں میں ہے یا شاید شھید کردیا گیا ہے لیکن وہ فکر ابدمان زندہ ہے اور رہے گا سنگت کا وہ دیا ہوا شعور جو آج ہم تیرہ سال بعد بھی یاد کر رہے ہیں اور ہر بلوچ کو یاد کرنا چاہیے اور یقیناً یاد کر رہے ہیں۔

اگر ہم ذاکر جان کی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو اس نے ہر جگہ ہر وقت بلوچستان کی آزادی، بلوچ، بلوچی اور بلوچیت کی بات کی ہے اور اس کا خواب دیکھا تھا کہ کب تک ہم غلامی کی زندگی سے چھٹکارہ پایئنگےاور کامیابی کے حصول کا خواب بسر کرینگے، مگر اس خواب کو کم ہی لوگ حقیقت میں تبدیل ہوتے دیکھتے ہیں۔ زاکر مجید ایک سوچ ہے جو ہر بلوچ کے پاس ہے اور رہےگا اُس نے بچپن میں ہی اپنا راہ چن لیا تھا وہ جدوجہد کی راہ میں لوگوں کو موبلائیز کرتا اور ایک آزاد ریاست کے بارے میں بتاتا تھا۔

زاکر مجید جانتا تھا کہ مسلح جدوجہد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کو اختیار کرکے دنیا کے کئ اقوام نے آزادی حاصل کی تھی وہ قومی آزادی کی جنگ میں ہر طرح کے مصیبتوں سے لڑنے کے لئے ہمیشہ سب سے آگے کھڑے رہتے تھے اور وہ عملی سیاست پر بھروسہ کرتا تھا۔

ذاکر مجید کی زندگی انقلاب سے وابستہ تھا اس کے ساتھ ساتھ (بی اس او) آزاد کا ممبر تھا اور اس کی مخلصی کی وجہ سے ذاکر جان کو وائس چیئرمن سلیکٹ کیا گیا۔ ذاکر مجید بلوچستان کے کونے کونے میں جاتا تھا کبھی کراچی تو کبھی کوئٹہ کبھی تربت تو کبھی خضدار وہ گھر گھر میں گلی گلی میں جا کر آزاد بلوچستان اور بلوچی کی بات کرتا تھا۔ وہ لوگوں کو آگاہی دے رہا تھا کہ دشمن کیسے اس سرزمین کو نگلنا چاہتاہے۔ کیسے ہمارے ساحل وسائل کو لوٹنا چاہتاہے اور وہ کیسے ہماری جغرافیہ ،شناحت، زبان، اور ہمارےکلچر کو مسخ کر رہاہے۔

ذاکر مجید بس دشمن سے آزادی چاہتا تھا، اس لئے وہ اخلاقی طور پر مزاحمتی اور بلوچ سیاست کو سپورٹ کرتا تھا اور اس کے نتائج بھی معلوم تھے کہ زندان اور موت ہے لیکن اُس کو اس بات کا فکر نہیں تھا کیونکہ اس کے ارادے اونچے پہاڑ کی طرح مضبوط تھے۔ اُس کے لئے بلوچ قوم سے بڑ ھکر کچھ نہ تھا اُسے محبت تھا ہر چیز سے، اپنے مٹی سے اور سر زمین سے ان پہاڑوں سے جو ہزاروں سالوں سے اس کی حفاظت کر رہے ہیں اسے خحوبی علم تھا کہ اس محبت کا کیا انجام ہوگا۔

وہ لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ غلامی کی زندگی کس حد تک بلوچ قوم کو سیاسی اور سماجی طور پر استحصال کی طرف لے جارہا ہے وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو یہ بتاتا تھا کہ غلامی کی زندگی سے کس طرح نکلا جاسکتا ہے۔ وہ لوگوں کو علم اور شعور کے زریعے قومی آزادی کی طرف لے جارہا تھا یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے علم و شعور سے آذادی کے مشن کو اپنی قوم تک پہنچاتے ہیں۔اور دشمن یہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ بلوچ قوم علم اور شعور حاصل کرے، دنیا میں آج تک جتنے بھی قبضہ گیر گزرے ہیں انہیں اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ اگر غلام قوم کچھ مطالعہ سے وابستہ ہوگا تو کل کو یہ ہمارے خلاف ہوجائیں گے وہ ہر اُس چیز کے خلاف بغاوت کرتا تھا جو بلوچ قوم کو نقصان پہنچا رہا تھا۔

زاکر مجید کو قومی پروگرام سے محبت تھا وہ ہر پروگرام میں جاتے تھے اور اپنی آزادی کا درس دیتے اور وہ یہ پیغام ہر بلوچ تک پہنچاتے کہ جتنے بھی نوآبادکار تھے مظلوم نے نوآبادیاتی نظام کے خلاف اپنے قومی بقا کی خاطر اپنا سیاسی مزاحمتی جنگ کرتے اور بحیثیت بلوچ کا بھی قومی فرض بنتا ہے کہ اپنے دشمن کے خلاف آواز اٹھائیں۔

وہ ایک ایسے غلام معاشرے سے تعلق رکھتا تھا جہاں بات کرنا ایک عظیم گناہ تھا اس نے غم و رنج دیکھا تھا اور نفرت تھی غلامی سے اور وہ دنیا کے محکوم قوموں کو یہ شعور دینا چاھتا تھا کہ کیسے غلامی کی زندگی سے نکل کر ایک آزاد ریاست قائم کر سکیں، اور یہی درس دیتے دیتے پاکستانی آئی ایس آئی نے اسے آٹھ جون دو ہزار نو کو زبردستی اٹھا کر ٹارچرسلوں میں ڈال دیا۔

تب سے لیکر آج تک وہ جسمانی اور ذہنی درد میں مبتلا ہے نہ جانے کس حال میں ہیں اور کونسے اذیتیں سہہ رہا ہے آزادی کی سفر میں اس نے اپنا والد اپنا بھائی اور اپنے کئی انقلابی دوست اسی فلسفے کی خاطر قربان کردیئے اور یہ ہر بلوچ پر قومی فرض بنتا ہے کہ وہ اس قربانی کو آگے لےجائیں۔

زاکر مجید کی بہن نے ماما قدیر کے ساتھ اور دس سالہ علی حیدر کے ساتھ مل کر دنیا کا سب سے بڑا لونگ مارچ کوئٹہ ٹو کراچی، کراچی ٹو اسلام آباد کیا۔ لیکن قبضہ گیر نے ابھی تک زاکر مجید کو نہیں چھوڑا کیونکہ وہ ڈرتا ہے اُس کی سوچ سے اُس کے نظریہ سے اور اُس کے فلسفے سے جو آزادی ہے۔

دشمن میری آنکھیں تو نکال سکتا ہے لیکن وہ میرے اُس آزادی کی سوچ کو نہیں نکال سکتا جو میں نے آزاد بلوچستان کے لئے شروع کیا تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں