توتک – سمیرا بلوچ

633

توتک

تحریر: سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں بلوچستان کی پہچان گوادر کی طویل اور اہم ساحلی پٹی، سوئی گیس ، سیندک اور ریکوڈک کے سونے، چمالنگ کے کوئلے اور زیر زمین دفن بیش بہا قدرتی وسائل سے ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم بلوچوں سے کوئی بلوچستان کے سر زمین کی پہچان متعلق پوچھیں تو ہم اسے بتائیں گے ، بلوچستان جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے بلوچ فرزندوں کی جنم بھومی ہے! بلوچستان قابض پنجابی استعمار کے لیے سونے ، چاندی کے علاؤہ محکوم و مظلوم بلوچوں کے لیے اجتماعی قبریں اور مسخ شدہ لاشیں اگلنے والی سرزمین بھی ہے۔بلوچستان شہیدوں اور بہادروں کی سر زمین ہے۔

ہر سال جب فروری کا مہینہ آتا ہے، تو پاکستانی فوج کے توتک کے علاقے میں الم ناک خونی آپریشن کے یادوں کو تازہ کرتی ہے، جسے بلوچ قوم کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی ہے۔ اس آگ اور خون کے کھیل کے جو گہرے اثرات بلوچ قوم پر مرتب ہوۓ وہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی جھنجوڑتی رہے گی ،پاکستانی فوج کے اس آپریشن کے آگ کے شعلوں میں اب بھی بلوچ قوم جل رہی ہے۔

18 فروری 2011 کے علی الصبح پاکستان کے فوج کا توتک کے علاقے کو گھیرے میں لے کر خونی آپریشن کرکے دو بلوچ نوجوانوں نعیم جان اور یحییٰ بلوچ کو شہید کرکے نعیم جان کے خاندان کے 16 افراد کو جبری طور پر اغواء کیا، ان میں ایک اسی سالہ بزرگ بھی شامل تھا، جو آج تک لاپتہ ہیں، اور اس خاندان کے افراد اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے اب بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔اسکے علاؤہ پاکستانی فوج اسی آپریشن میں دو درجن لوگوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گیا تھا اور آدھے گاؤں کو جلادیا تھا۔

جن لوگوں کو وہ گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے، ایک کی لاش کچھ وقت کے بعد مل گئی تھی۔ باقیوں کا آج تک پتہ نہیں چلا ، جن کی بازیابی کے لیئےانکے خاندان والے آج تک جدوجہد کر رہے ہیں۔ توتک کے علاقائی لوگوں کے بقول توتک میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا، کہ توتک میں صرف عورتیں تھیں۔

اس علاقے کے سارے مردوں کو پاکستانی فوج جبری طور پر اغواء کرکے پاکستانی عقوبت خانوں میں بند کرچکی تھیں۔ بلوچستان میں خصدار شورش زدہ علاقہ بن چکا تھا۔ پاکستانی فوج کے بناۓ گئے ڈیتھ سکواڈ شفیق مینگل کی سربراہی میں پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے تھے،جبری گمشدگیاں، ٹارگٹ کلنگ ، قبضہ مافیا اپنے عروج پر تھا۔خضدار کے آبائی لوگ اپنے آباء و اجداد کی سرزمین اور اپنے مال و متاع چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔خضدار میں ظلم کا یہ سلسلہ یہیں پر نہیں تھما تھا۔ ضلع خضدار کے علاقے توتک میں 25 جنوری 2014 کی سرد صبح، ایک بلوچ چرواہا اپنا ریوڑ چراہتے ہوئے مژی کے علاقے کو نکلتا ہے۔ اور اس چرواہے نے وہاں پر کچھ انسانی اعضاء دیکھے۔ اس نے اہل علاقہ اور لیویز کو اسکے متعلق اطلاع دی۔ پھر لیویز کی کاروائی کرنے پر وہاں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جس میں سے 169 کے قریب مسخ شدہ لاشیں دریافت ہوئی، جو ناقابل شناخت تھیں۔ کیونکہ ان لاشوں پر چونا چھڑک کر انھیں مسخ کر دیا گیا تھا۔

اس واقعے کی بازگشت بین الاقوامی سطح پر بھی ہوئی ، لیکن پاکستان کے ان جنگی جرائم پر عالمی خاموشی بلوچ قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔دنیا اپنے مفادات کے تحت پاکستان سے اپنے تعلقات کو ظاہر ہے خراب نہیں کرے گا۔ پاکستان دنیا میں اس وقت ہتھیار درآمد کرنے والے ملکوں میں دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے، جو تقریباً 800 بلین ڈالر سالانہ اس مد میں خرچ کرتا ہے۔ چین، امریکہ اور روس کے بعد پاکستان بڑی تعداد میں ہتھیار برآمد کرتا ہے ۔اسکے علاؤہ پاکستان کے جنگی جرائم پر بات نہ کرنا یا ان کے خلاف ایکشن نہ لینے کی چند ایک اور وجوہات بھی ہیں۔ جس میں سرفہرست پاکستان سے انکے وابسطہ مفادات ہیں۔ پاکستان عالمی طاقتوں کے لئے ایک ریاست سے زیادہ ایک کرائے کے فرم جیسا ہے۔ جس طاقت نے جو چاہا ،جیسا چاہا، اس سے کام لیا۔

لیکن کمزوری ہماری اپنی بھی ہے۔ بلوچ سیاسی کارکن جو باہر ممالک میں بیٹھے ہیں، بلوچ قوم کے لیے دوست اور ہمدرد بنانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔بلوچ قوم کے سیاسی لیڈروں ، دانشوروں، ایکٹوسٹس کو چاہیے کہ بین الاقوامی سطح پر بہترین سفارتکاری کے لیے ازسرنو کوششیں شروع کریں، تاکہ وہ بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم سے دنیا کو آگاہ کرکے بلوچوں کو پاکستان کے مظالم سے چھٹکارا دلائیں۔ بلوچستان میں اس وقت لگ بھگ 50,000 کے قریب بلوچ لاپتہ ہیں، جو کہ ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں بوڑھے ، بچے ، جوان، عورتیں، سیاسی کارکن، صحافی، چرواہا، ٹیچر، سبھی جبری گمشدگی کے شکار ہیں۔ یہ بحثیت ہماری بلوچ قوم کی ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کی توجہ کو اپنے اوپر ہونے والے اس ظلم سے آگاہ کرۓ۔ اور اچھی سفارتکاری کے ذریعے دنیا کو اپنا ہمدرد بنا کر اپنی آنے والی نسل کو غلامی کی زنجیروں سے آزادی دلاۓ۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں