ہاں میں غدار ہوں – زبیر بولانی

634

ہاں میں غدار ہوں

تحریر: زبیر بولانی

دی بلوچستان پوسٹ

ہاں میں غدار ہوں کیونکہ میں سچ بولتا ہوں، ہاں میں غدار ہوں کیونکہ میں حق کیلئے لڑتا ہوں ، ہاں میں غدار ہوں کیونکہ میں بر سر میدان غلط کو غلط کہتا ہوں، ہاں میں غدار ہوں کیونکہ میرا تعلق بلوچستان سے ہے ،ہاں میں غدار ہوں کیونکہ میں بلوچ ہوں۔

انگریزوں کی آزادی کے بعد حاکموں کی روز اول سے ہی یہی پلاننگ ہے کہ جو سچ بولے حق کا ساتھ دے مظلوم کیلئے آواز بلند کرے ان کو غدار کہہ دو معاملہ ختم اور یہ صرف بلوچستان والوں یا صرف بلوچ کیلئے نہیں بلکہ وہ جسے لوگ مادر ملت کہہ کر پکارتے تھے انہیں بھی جنرل ایوب خان کے دور میں غدار کے لقب سے نوازا گیا تھا کیونکہ اس ملک میں جمہوریت نام کی کوئی شئے پیدا ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی جمہوری اقدار کی پاسداری ہوئی۔ روز اول سے ریاست کو ڈکٹیٹر شپ کے حوالے کیا گیا جس پر خود مرحوم جنرل حمید گل نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ہمیں برٹش نے صرف زمین کا ٹکڑا دیا ہے آزادی نہیں دی۔ ‏اس ریاست میں ہر شخص چاہے وہ بچہ ہو بڑا ہو نوجوان ہو پیر و بزرگ ہو سب کو غداری کا لیبل لگا کر اپنے عزائم میں کامیابی حاصل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔


‏1952 میں سوئی گیس دریافت ہوئی تھی جو 1956 میں پنجاب میں پہنچائی گئی لیکن وہی گیس 1985 میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پہنچی اور آج بھی 36 اضلاع میں سے صرف 4 اضلاع میں گیس ہے اور باقی اضلاع میں سوئی گیس کا نام و نشان نہیں اور پھر جب جائز حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں تو غدار کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طرح سیندک ریکوڈک گوادر وغیرہ ان سب سے بلوچ قوم کو صرف مسخ شدہ لاشیں اور اذیتیں ملی ہیں آج گوادر کو باڑ لگا کر وہاں کے رہنے والوں کو بے دخل کیا جارہا ہے اگر ہم آواز اٹھاتے ہیں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے۔

71 سال گزرنے کے باوجود آج بھی بلوچستان میں بھوک ،غربت بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور پھر جب ہم آواز اٹھاتے ہیں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے۔۔آج دنیا میں زچگی کے دوران وفات پانے والوں کی تعداد بلوچستان میں زیادہ ہے اور پھر جب ہم آواز اٹھاتے ہیں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے۔ تعلیمی ادارے نا ہونے کے برابر ہیں ،صحت کا کوئی اچھا ادارہ نہیں ہے ،آج بھی بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔

دنیا میں واحد روڈ جسے ڈیتھ روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے (RCD highway) جو کراچی سے لیکر کوئٹہ تک کا طویل فاصلہ ہے اور پھر ان ظلم و زیادتیوں کے لیئے اگر ہم آئینی طریقے سے پر امن احتجاج کرتے ہیں تب بھی ہمیں غدار کہتے ہیں. اگر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا حق کا ساتھ دینا غداری ہے تو بلوچ قوم کی یہ نسل اس سے اگلی نسل اور پھر نسل در نسل غداری کرے گی آپ کے ساتھ ۔آپ جتنا چاہے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں بلوچ قوم کی آواز دبانے سے مزید مضبوط اور طاقتور بن کر ابھرے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں