قومی خودکشی سے نجات کی علمبرادر کریمہ کیوں خودکشی کریگی؟ – سعید یوسف بلوچ

337

قومی خودکشی سے نجات کی علمبرادر کریمہ کیوں خودکشی کریگی؟

تحریر: سعید یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بانک کریمہ بلوچ کو سہریں سلام ،یقین نہیں آرہا کہ وہ جسمانی طور پر آج بلوچ جہد آجوئی کے درمیان موجود نہیں ہے، ان کے لاپتہ ہونے کے بعد ان کی شہادت کی خبر گہرا صدمہ تھا، خاص کر بلوچ قوم کے لئے اور بلوچ آزادی پسند دوست ساتھیوں اور جہد کاروں کے لئے اب تک ہم سمجھ رہے تھے کہ جو بلوچ با ہر بیٹھے ہوئے جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں، وہ شاید محفوظ ہیں اور بلخصوص ان ممالک میں جو ہمارے نظر میں انسان دوست ہیں، مہذب و جمہوری ہیں اور ان کے قوانین اعلیٰ ہیں اور جو بلوچ ان کے درمیان پناہ لئے ہوئے ہیں وہ با حفاظت ہوں گے لیکن کریمہ بلوچ اور اس سے پہلے ساجد بلوچ کے المیے کے بعد ان ممالک کی پوزیشن کو سمجھنے میں ہمیں کوئی مشکل نہیں کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں اور خاص کر کینیڈین پولیس کی کریمہ بلوچ قتل و شہادت کے بعد پولیس رپورٹ جس میں معلومات کو مسخ کیا گیا اور ایک سطحی رپورٹ کے ذریعہ کاروائی کے حاصلات کو لے کر زمینی حقائق کو چھپانے کے بعدسے ان ممالک اور ان کے انتظامیہ کے مشکوک رپورٹس کافی حیران کن ہیں۔

کینڈین پولیس کی جانب سے کریمہ بلوچ کی قتل کو ایک طرح سے خود کشی کی رنگ دینے یا تاثر دینے کی کوشش کی گئی جو کینیڈین پولیس کی کارگردگی اور انتظامی کاروائی پر سوالیہ نشان ہے؟ ہمارا خیال تھا کہ کینیڈین پولیس کا رویہ ہمدردانہ ہوگا یا پھر غیر جانبدارانہ !لیکن یہاں صورتحال اس کی بالکل الٹ ہے، کینڈین پولیس کی رپورٹ نہ صرف بلوچ رائے عامہ بلکہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے ہمارا ایمان ہے کہ کریمہ خود کشی نہیں کرسکتی کریمہ بلوچ ایک بہادر اوردلیر اور سرگرم بلوچ جہد کار تھی۔ انہوں نے بلوچ عوام بلخصوص بلوچ خواتین کو وسیع پیمانے پر موبلائز کرکے انہیں قومی جدوجہد سے منسلک کیا، وہ ایک توانا آواز تھی وہ شعوری طور پر سائنسی سمجھ بوجھ اور ایک مستقل قومی پروگرام کے ساتھ بلوچ جدوجہد سے منسلک تھی وہ انتہائی بہادری کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کی قیادت کی وہ آخری سانس تک اس غیر انسانی نظام کے خلاف جدجہد کرتی رہی، وہ ایک اکیڈیمک کردار تھی جو اپنی سرزمین کی آزادی اور قومی بقاء کے لئے جدوجہد کررہی تھی ان کی تعلیمات اور سرگرمیوں سے بلوچ سماج میں فیصلہ کن اثرات پڑرہے تھے ۔

ان کے خاندان سے شہادتیں ہوئیں، ان کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی سمجھوتہ اور شکست تسلیم نہیں کی جب ان کے لئے بلوچستان میں زمین تنگ کردی گئی تو وہ کینیڈا چلی گئی اور بلوچ تحریک سے اٹوٹ وابسطگی اور سرگرمیوں سے آخر تک دست بردار نہ ہوا اور آخر ی سانس تک بلوچ و بلوچستان کی مضبوط و طاقت ورآواز بنی ایسے راہنماء کیوں خودکشی کریگی جب وہ بلوچ قوم کو غلامی کی صورت میں اجتماعی خودکشی سے نجات دلانے کی کوششوں میں تھی، جدوجہد کے اس پل صراط پر انہوں نے جس طرح کے مصائب کا سامنا کیا جس طرح کے حالات سے وہ گزرے جس پر جو چلے جان سے گزر گئے والی صورتحال تھی لیکن انہوں نے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ وہ مسلسل و مستقل ایک درخشان صبح کی آرزو لے کرجدوجہد کرتی رہی۔ تنظیم سے پارٹی کی جانب سفرکرتے ہوئے ایک نظریاتی اتھارٹی کے ساتھ وہ ایک مرحلے کے بعد دوسرے مرحلے میں کالونائزرکے سامنے مد مقابل ہوا۔ وہ یقینا خراج تحسین کے لائق ہے کریمہ اس دوران بلوچ جہد آزادی سے وابسطہ ہوئی جب چند نظریاتی ساتھیوں کے حوالے سے کوئی بڑاا ثاثہ موجو د نہیں تھااور خاص کر خواتین کی وسیع تر شرکت نہ ہونے کے برابر تھا۔

کریمہ بلوچ ابتدائی نظریاتی ساتھیوں میں سے ہے، جب وہ خواتین کی شعوری و سیاسی تربیت جاری رکھے ہوئے تھی اور ایک صبر آزما عمل کے ساتھ مسلسل جدوجہد کے ساتھ کام کرتے رہے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پائمالیوں پر کڑی تنقیدکی کریمہ بلوچ کی جدوجہد اور ان کے متحرک کردار کو سامنے رکھتے ہوئے کینڈین پولیس کے حقائق کے برخلاف رپورٹ کو بلوچ سیاسی و نظریاتی اتھارٹی مسترد کرتاہے، اسے نہ صرف زمینی حقائق پر پردہ ڈالنے کی مترادف بلکہ کریمہ بلوچ کی جدوجہد آزادی اور سیاسی موقف کی سراسر توہین سمجھتے ہیں۔

کریمہ بلوچ کو ان ہزاروں بلوچوں کی طرح شہید کیا گیاجنہیں ریاست اپنی وحشت کا نشانہ بناکر شہید کرچکا ہے۔ ان کے سیاسی وقومی آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی کریمہ کو بھی ان ہی قوتوں نے شہید کیا، جنہوں نے دوسرے بلوچوں کو موت کے گھاٹ اتارا لیکن اس بار صرف طریقہ کار او ڈاکٹرائن تبدیل کرکے قاتل کے پیروں کے نشانات چھپانے کی کوشش کی گئی پا کستانی دانشور جو علم و دانش پر ایک بوجھ ہیں اور ہمیشہ سے بلوچ قومی جدوجہد کے خلاف منفی پروپیگنڈوں میں اول کے صفوں میں ریاست کے ہم پلہ رہتے ہیں اپنے اپنے بھاشنز میں وہ اس اندوہناک واقعہ پر اپنی دانشوری کا رعب جماکر جھوٹ سے بڑھ کر جھوٹ بولتے رہے اور پرانی جھوٹ بولنے کی نئی روایت قائم کی اور ریاستی اینکر پرسن تجزیہ کارمکے لہرا کر کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کو غیر ملکی قتل سے جوڑنے کی کوشش کرکے کالونایئزر کے وکیل بنے پھرتے رہے۔

دانشوری کے سر سبز و شاداب دنیا کے ان اجڈ دانشوروں کی دنیا اور شہیدوں کی پل صراطی وعملی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے جب کہ کریمہ بلوچ کے لئے خود ساختہ جلاوطنی کے اصطلاح سے ان کی پر اسرار موت کا اصطلاح تک جھوٹ بولا گیا ان کی نظریات اور وژن پر حملہ کیا گیا، کریمہ بلوچ نہ تو خود ساختہ جلا وطن ہوئے اور نہ ہی ان کی موت پر اسرار ہے ایک تو انہیں وطن سے باہر رہنے کے لئے مجبور کیا گیا اور ایسے حالات پیداکئے گئے کہ وہ وطن سے جلاوطن ہونے تک ان کے لے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ وہ اپنے طور پر کینیڈا میں پناہ نہیں لی بلکہ ان کے لئے بلوچ سرزمین کوجہنم بنا دیاگیاوطن میں رہے تو غلاموں کا سلوک اور مجرم کا سا سلوک اور باہر بھی انہیں بخشا نہیں گیا یا یہ کہنا کہ ان کی موت پر اسرا ر طور پر ہوئی پر اسرار کا لفظ استعمال کرنا درست نہیں کیونکہ ان کی قتل کرنے والے پر اسرار نہیں سب کہ معلوم ہے کہ وہ کون ہیں۔ ان کے مقاصد کیا ہیں اور وہ وجوہات کیا ہیں جن کی وجہ سے کریمہ بلوچ کو قتل کیا گیا اورکون سے حقائق ہیں جو کریمہ بلوچ کی شہادت کی وجہ بنے اور وہ کون ہے جو بلوچ سیاسی و نظریاتی کیڈرز قائدین اور سیاسی کارکنوں کو نشانہ بناتے ہیں؟ اس سے بلوچ قوم کم ازکم بے خبر نہیں اگرچہ اقوام عالم اپنے مفادات کی خاطر اپنے آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے تو یہ الگ بات ہے۔

اگر ہیومین رائٹس واچ ایمنسٹی انٹر نیشنل اور عالمی تفتیشی ادارے یا کینیڈین پولیس بے خبر ہیں یا انہیں معلومات نہیں روزانہ کے دوران ریکارڈ ہوتے چشم دید بلوچ مظاہرین کی آواز ان کی کانوں تک نہیں پہنچتی یا ان کی فریاد ان کے سننے کے معیار پر نہیں آتے تو یہ ایک الگ بات ہے۔

آج کریمہ بلوچ ہمارے بیچ جسمانی طور پرموجود نہیں لیکن نظریاتی تحریکی اور فکری طور پر تو ان کی موجودگی بلوچستان پر چھائی ہوئی ہے کریمہ ایک فرد نہیں ان کا قتل ایک فرد کا قتل نہیں ایک وژن اور نظریہ کو مٹانے کی کوشش تھی، کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ایک جھیل میں اس کی جسد خاکی مل جاتی ہے تو پورے بلوچستان میں صف ماتم بچھ جاتاہے اگر وہ ایک فرد ہوتا تو اتنا کہرام برپانہ ہوتا وہ ایک نظریہ اور ایک تحریک کا نام تھی۔

کالونائزر کو معلوم ہونا چاہیے کہ تحریکوں کو قتل نہیں کیا جاسکتا جدوجہد کرنے والے قوموں کی لاتعداد لاشیں گرانے کے باوجودنظریات اپنا وجود نہیں کھودیتے نظریات تاریخ کے کسوٹی پر وہ سچ ہوتے ہیں جو قوموں کی آزادی کا سبب بنتے ہیں وہ کونسی آزادی کی تحریک ہے جو خون بہانے سے ختم ہوئی مجھے تاریخ کا ایک ایسا باب دکھائیں کہ خون بہانے اور لاشیں گرانے سے تحریکیں ختم ہوئیں یا ایسی تحریکوں کو منزل پر پہنچنے سے روکا گیا یا انہیں منزل نہیں ملی جو اپنی آزادی شناخت اور بقاء کے لئے جدوجہد کی، ان کی قربانیاں رائیگاں گئی انہیں خاموش کیا گیا بلوچستان میں کالونائزر وہی خونی تجربہ کررہاہے جو دنیا کے نوآبادیاتی طاقتوں نے کی سامراج کی روپ دھارنے والے قوتوں کو تاریخ انتہائی بے رحمی کے ساتھ اکھاڑ کر زمین بوس کردے گی اور دنیا کے انقلابی اور آزادی چاہنے والے جان سے گزرتے ہوئے بھی تاریخ میں امر رہتے ہیں ان کے یاد کرنے والے لاکھوں میں ہیں ان سے عقیدت رکھنے والے انسانوں کا ایک سیلاب ہے تاریخ انہیں سلوٹ کرتی ہے جیسے بانک کریمہ کو لاکھوں کی تعداد میں لوگ لال سلام پیش کررہے ہیں ان کی آخری یادگار پر صدیوں اور ہزاروں سالوں تک لوگ انہیں سلام کرنے آئیں گے اس لئے کہ وہ تاریخ کے دھارا کو بدل کر رکھ دیا اور موت کو شکست دی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں