بلوچ لاپتہ کیلئے احتجاج جاری، ایم کیو ایم رہنماوں کی شرکت

152

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4152 دن مکمل ہوگئے۔ کراچی سے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن رابطہ کمیٹی اور سابقہ ایم این اے عبدالوسیم، سابقہ ایم این اے سلمان مجاہد بلوچ، صوبائی صدر ملک عمران کاکڑ، سابقہ صوبائی صدر سلیم اختر ایڈوکیٹ، نور اللہ سمالانی اور دیگر نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر سابق ایم این اے عبدالوسیم کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کسی کے بچے ہیں، ان کو فوری طور پر رہا کرکے ان کے مشکلات حل کیئے جائیں۔ کیونکہ پاکستان کی صورتحال اتنی اچھی نہیں ہے کہ وہ مزید اس طرح کی چیزیں کرکے مسائل میں اضافہ کرے۔

ایم کیو ایم رہنماء کا کہنا تھا کہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو قانون کے مطابق انہیں سزا دی جائے یا پھر انہیں رہا کردیا جائے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ قوم کے دکھ، درد اور صورتحال دیکھ کر شاید ہی کوئی سنگدل انسان اپنے آنسووں کو روک پائے لیکن یہ بلوچ قوم ہے جو دکھ سہنے کے باوجود برداشت کیئے جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس برداشت کی آڑ میں کچھ سوداگری میں لگے ہوئے ہیں، ظلم کو برداشت کرنا بلوچوں کی مجبوری ہے کیونکہ غلام قوم اس کے سوا کچھ نہیں کرسکتا ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندان کے شہادت کے ساتھ ہی شروع ہوا جس کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ بلوچستان میں انسانیت سوز پالیسیوں سے ریاستی میڈیا نے کبھی بھی سر اٹھاکر نہیں دیکھا اور نہ کبھی یہ سوچنا گوارا کیا کہ بلوچستان اور بلوچوں پر مظالم کیوں کر ڈھائے جارہے ہیں۔

دریں اثناء سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی جانب سے بلوچ طالب علم رہنماوں کے جبری گمشدگی کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جارہی ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کمپئین کی حمایت کرتے ہوئے اس میں شامل ہے جبکہ دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کمپئین میں حصہ لے رہے ہیں۔

کمپئین میں حصہ لیتے ہوئے ایک صارف ریحان بلوچ نے لکھا کہ بلوچ طلباء رہنماوں کو اس لئے زندان میں بند کر دیا گیا کہ وہ اپنے قوم کو شعور اور تعلیم سے آراستہ کررہے تھے، دنیا کی کون سی ملک ہے جو تعلیم اور شعور کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو زندانوں میں بند کرتا ہے۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کردار ادا کریں۔

اسی طرح بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ گروشک بلوچ نے لاپتہ طالبعلم رہنماء شبیر بلوچ، انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ، طالبعلم رہنماء فیروز بلوچ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ کے تصاویر شئر کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے انصاف کے اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے، عدالتوں میں گئے، مظاہرے کیئے لیکن ایک بھی ادارے نے ان کی بات نہیں سنی۔