یہ کیا ہورہا ہے؟ – ازہان بلوچ

555

یہ کیا ہورہا ہے؟

تحریر: ازہان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں گذشتہ دو مہینوں سے طلبا کی آپسی گہما گہمی کا نظارہ کرتا رہا، کبھی کنفیوژن کی کیفیت حاوی رہی تو کبھی اطمینان کی حالت میں طلباء اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے، دراصل سیاست میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے. آپس رسہ کشی ہوتی رہتی ہے، ایک دوسرے کے درمیان چند مسئلوں پر کھینچا تانی ہوتی رہتی ہے، اس سارے عمل میں دونوں فریقوں اور انکی پیروی کرنے والوں کی آرٹیکلز اور سوشل میڈیا میں بہت پوسٹیں دیکھ چکا ہوں۔

وہ دوست جو بساک کے مرکز سے نالاں ہیں کہ مرکز میں چند انا پرست، سیاست سے نابالغ افراد کی اجارہ داری قائم ہے، جو مصنوعی لیڈر شپ ہیں، انکی رہنمائی کوئی اور کرتا ہے، یہ روبوٹ کی طرح ہیں وغیرہ وغیرہ۔

ہم ان سے تنظیم لے کر ایک الگ بساک بنائیں گے، ہماری بساک میں شفافیت ہوگی ،تنقید برداشت ہوگی، کوئی بھی آکر مرکزی عہدیداران پر سوالات کی بوچھاڑ کرسکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

یہ جو بساک کی مرکز پر قابض ہیں، ہم انہیں نہیں مانتے ہیں انکے خلاف ہم ہر جگہ زون تشکیل دینگے اور دے بھی رہے ہیں انکی بدمعاشی کو عیاں کرتے رہینگے وغیرہ وغیرہ۔

آج تک اُن دوستوں نے جتنے زون بنائیں ہیں یا جتنے آرٹیکلز لکھے ہیں میں بذات خود ان دونوں میں تفریق کرنے سے قاصر ہوں، کیونکہ یہاں بھی سننے میں یہی آرہا ہے کہ سوال کرنے پہ گروپ سے نکالا جاتا ہے یہاں بھی طریقہ سیاست پرانے طرز پر ہورہا ہے ۔

باغی گروہ کی جانب سے آج تک جتنے آرٹیکلز لکھے گئے ان سب میں ایک باتیں مشترک ہیں جوکہ درج ذیل ہیں: *مرکز نااہل ہے،
*مرکز کارکنان سے ملاقات کرنے سے قاصر ہے،
*مرکز ہم سے خوف زدہ ہوکر ہمارے خلاف لکھنے کے لئے پروگرام منعقد کررہا ہے ،
*مرکز ہمیں خاموش کرنے کے لئے ہمارے خاندانوں کو ڈرا دھمکا رہی ہیں ،
*مرکز ہمارے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے ،
*مرکز دوستوں کو پروگرام دینے سے قاصر ہے ،
*مرکز جونئیر لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہے ،
*مرکز کبھی ہمیں اپنا ممبر تصور نہیں کرتا تو کبھی ہماری رکنیت ختم کرتی ہے مطلب بوکھلاہٹ کا شکار ہے،
*ہم بساک کو توڑ نہیں رہے ہیں وغیرہ وغیرہ

آئیں اب انکی باتوں پہ غور کرتے ہیں چند کی درستگی فرماتے ہیں اور کچھ مقامات پہ تصحیح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ یہ دوست مرکزی کابینہ کے اختیارات چاہے وہ آئینی ہوں یا صوابدیدی اُن سے ناواقف نظر آتے ہیں، اس لئے انہیں چند دوستوں کی معطلی اور انکی رکنیت سے برطرفی غیر آئینی لگتی ہے، دوسری بات بساک کی موجودہ مسئلے کو علاقائیت کا لیبل والا معاملہ بھی محکم نہیں ہے کیونکہ ایک عہدیدار کی آواران کے دوستوں سے گلے کو علاقائیت کی جانب لے جانا سراسر ناانصافی کے مترادف ہے۔

یہی دوست اپنی ہر مجلس میں کہتے آرہے ہیں کہ بساک کے مرکز میں تنقید کی گنجائش بالکل نہیں ہے، یہ بھی قدرے زیادتی ہے کیونکہ انکی غیر رسمی تنقید کی وجہ سے مرکز انہیں زون ٹو زون وقت دے چکی ہے، وہ الگ بات ہے کہ یہ دوست اپنے سوالوں کے جوابات سننے کے لیے تیار نہیں تھے اور آئیندہ نہیں رہینگے۔

ڈاکٹر شکیل اپنے حالیہ آرٹیکل میں سلیکشن اور سیشن کی باتیں کررہا ہے، اسکا جواب اسی ہی دن فیس بک میں ایک نیک دوست نے دیا ہے کہ زونل عہدیداران کے چناؤ کا طریقہ کار یہ ہے کہ مرکز سنیئر زونل عہدیداران سے بات کرکے انہیں نئے زونل عہدیدار منتخب کرنے کی اختیار دیتی ہے اور یہ عمل آئینی بھی ہے۔

ڈاکٹر صاحب اپنے کالم میں رقم طراز ہیں کہ مرکز نے کونسی آئینی اختیارات کے تحت اپنے ایک مرکزی دوست کو معطل کیا، مزید کہتا ہے کہ کونسے آئین میں یہ ہے کہ ایک کارکن تین مہینے سے زیادہ عرصے تک معطل رہتا ہے (میں ڈاکٹر صاحب کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ جب بھی کوئی کارکن چاہے وہ مرکزی کابینہ کا رکن ہی کیوں نہ ہو تب تک معطل رہے گا، جب تک مرکزی کمیٹی کا اجلاس نہ ہوا ہو کیونکہ اب یہ فیصلے کا اختیار صرف مرکزی کمیٹی کے اجلاس کو ہوتی ہے کہ آیا معطل شدہ دوست کو بحال کیا جائے یا پھر اسکی رکنیت ختم کی جائے، جہاں تک بات ان دوستوں کی ہے اس دوران مرکزی کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہو سکا تھا اس لئے یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہوا تھا، ایک بات مزید واضح کرتا چلوں کہ یہ تاخیر اس لئے ہوا تھا کہ کیونکہ ان معطل شدہ کارکنوں میں سے ایک مرکزی کابینہ کا عہدیدار بھی شامل تھا، نہیں تو دوسرے زونل کارکنان کی معطلی اور برخاستگی کا اختیار مرکزی کابینہ کو ہے، اس کے لئے کوئی مرکزی کمیٹی کا اجلاس ضروری نہیں ہوتا) سب سے پہلے انکی انفارمیشن میں درستگی کرتا چلوں کہ ایک مرکزی کابینہ کا دوست اور دوسرا زونل عہدیدار تھا ، رہی بات کہ ایک کارکن کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کرکے بلایا گیا تھا، اور گراونڈ پہ نالاں ہیں، پہلی بات یہ ہے کہ اٗس کمیٹی کو چیئر مرکزی سیکرٹری جنرل سلمان بلوچ کر رہا تھا، ہاں البتہ ایک سینئر دوست شامل تھا، میں تمام بساک سے ناراض ہونے والے کارکنان سے مخاطب ہوکر یہ عرض کرتا چلوں کہ بات ایک ممبر کی کمیٹی میں شامل ہونے یا نہ ہونے کی ہرگز نہیں ہے بلکہ بات معطل کابینہ عہدیدار کی ہے جو غیر سیاسی و غیر سنجیدگی عمل کا حصہ رہا۔ آپ اگر وجوہات طلب کرنا چاہتے ہیں یہ تو عام ممبر تک کو پتا ہے کہ آپ کو غیر اخلاقی عمل میں مرتکب پاکر کابینہ نے معطل کیا تھا بعد ازاں فارغ کیا گیا دوسری بات گراونڈ بلوچستان یونیورسٹی تھا اس مقام پہ ہمارے سرکلز ہو سکتے ہیں ایسے دیوان کیوں نہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں