حسیبہ کا ساتھ کون دیگا – اذھان بلوچ

355

حسیبہ کا ساتھ کون دیگا

تحریر: اذھان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎آج اگر ہمارے نوجوان لکھاری ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے اپنی قلم کی طاقت کو حسیبہ قمبرانی، نسرین کرد، سیمہ بلوچ ، سمی دین، فاطمہ بلوچ سمیت تمام مسنگ پرسنز کے خاندانوں کے ساتھ ہونے والے کرب عظیم پہ لب کُشائی کرتے اور انکی آواز بنتے۔ اپنی قلم کی نوک پہ انصاف کے لئے لکھتے تو شاید انکے درد کا کچھ حد تک مداوا ہوجاتا اور ان کا یہ درد اور کرب سہنے کی سکت قدرے توانا بخش ہوتی، مگر افسوس ہم ایک دوسرے کے خلاف شب و روز الفاظ ڈھونڈ رہے ہیں کہ کوئی نئی اصطلاحات ہاتھ لگے یا کسی سیاسی زانت کار کا کہاوت آنکھوں کے سامنے سے گذرجائے اور میں اپنے مضمون کو پر کشش بناسکیں اور قاری میرے کالم کو پڑھنے کے بعد میری تعریفوں کی پل باندھنے لگ جائیں۔

‎اسی تناظر میں آج کوئی ڈاکٹر چی گویرا کے الفاظ کو استعمال میں لاتے ہوئے دوسروں پہ تیر کے نشتر چلا رہا ہے تو دوسرا خود کو نکروما، ہوچی منہ اور ماؤ کا ماننے والا سمجھ کر دوسرے کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کسی کے پاس مصنوعی لیڈر، سیاسی منافق اور انا پرست جیسے الفاظ موجود ہیں اور ان الفاظ کا استعمال سیاسی اختلاف کی آڑ میں ذاتیات کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال میں لارہا ہے۔

مجھ سمیت کئی لوگوں کو ابھی تک اس بات کا علم نہیں کہ جو الفاظ میں اپنے آرٹیکل میں استعمال کررہا ہوں انکے معنی و مفہوم سے میں خود واقف ہوں یا جن الفاظ کو میں دوسروں کو کاؤنٹر کرنے کے لئے استعمال میں لارہا ہوں کیا میں خود ان الفاظ کو خود کے لئے برداشت کرسکتا ہوں؟ یا ان الفاظ کے استعمال سے سوشل میڈیا میں جو شورش برپا ہوگی اسکی ذمہ داری اٹھا سکتا ہوں؟

اگر نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں جانے انجانے میں تضاد کو دعوت دے رہا ہوں۔ نوجوانوں کے آرٹیکلز میں باتیں تو بہت کی جاتی ہیں، لیکن انکے قول و فعل میں بھرپور تضاد ہے، باتیں چی گویرا کی کرتے ہیں، پیروکار گرامچی کے ہیں اور عمل قومی دشمن کے مترادف ہے۔ اگر نظریہ کی بات کی جائے تو ان نوجوانوں کا نظریہ کسی سوشلسٹ کے ساتھ دو نشست میں بدل جاتا ہے اور اگر فیمنسٹ کے ساتھ کچھ نشست ہوجائے تو فیمنسٹ بن جاتے ہیں اور اگر یہ بیچارے کسی نیشنلسٹ کے ساتھ نشست کریں تو نیشنلسٹ بن جاتے ہیں۔

بڑی بڑی شلواریں، مونچھوں کو تاؤ دینے کی عادت بھی ان میں سرائیت کرجائیگی۔ اور یہی سوشلسٹ اور فیمنسٹ تیسرے دن ویتنام کی جنگ آزادی، لہو لہو بنگلہ دیش، منگولیا کی آزادی، جیولس فیوچک کی سرگزشست اسیر کو اپنے کمرے میں سجا دیتے ہیں۔ مگر مطالعہ ان کا کام نہیں کتابوں کی سجاؤٹ صرف فیشن کے لئے۔

میرا ان دوستوں کو مشورہ ہے کہ بہتان تراشی سے پرہیز کرکے حقیقی مسائل کو اجاگر کریں اور سیاسی اختلاف کے نام پر ذاتی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقیقی مسائل پر نظر رکھیں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کا ساتھ دیں، حسیبہ اور سمی کا ساتھ دیں۔ ورنہ سیاسی اختلاف کے نام پہ لوگوں کی کردار کشی کا ڈرامہ آپ کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑیں گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں