مسافرماؤں کا ماتمی بازار – محمد خان داؤد

184

مسافرماؤں کا ماتمی بازار

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ مائیں جب سے اپنوں کی تلاش میں اپنے کچے گھروں سے نکلی ہیں، پھر مڑ کر گھر نہیں گئیں۔ ایسے دنوں میں کتنی بارشیں آئیں، کتنی ہوائیں چلیں، کتنی لوُ چلی اور کتنی شال کی اداس گلیوں میں بارشیں برسیں پر وہ مائیں ان گھروں کو نہیں لو ٹیں جن گھروں میں رہ کر وہ اپنے بچوں کے نام کے لوک گیت گایا کرتی تھیں۔ اب تو انہیں معلوم بھی نہیں کہ ان کا گھر کہاں ہے؟ گھر کے سارے باسی تو اب خود اک سفر بن چکے ہیں، کبھی کہاں؟ کبھی کہاں؟

ان ماؤں سے وہ گھر بھول گیا ہے، جن گھروں میں رہ کر وہ عید کے دنوں میں اپنے پیاروں کا انتظار کیا کرتی تھیں اور ان کے شہزادوں جیسے پیارے اپنے ہاتھوں میں بہت سی کتابیں لیے گھروں کو لوٹ آتے تھے اور آکہ ہی تقاضہ کرتے تھے کہ انہیں جلدی عید کے جوتے خرید کے دیئے جائیں کہ جو پیسے انہیں ملے تھے وہ تو ان پیسوں کی کتابیں خرید لائے۔

ان ماؤں سے وہ کتابیں بھی بھول گئیں۔ اب وہ مائیں کچھ یاد نہیں رکھتیں کہ بہت پیچھے رہ جانے والے گھروں میں ان کا کیا کیا تھا؟ شاید بہت کچھ؟ شاید کچھ بھی نہیں۔

اگر ان بہت پیچھے رہ جانے والے گھروں میں ان ماؤں کا بہت کچھ ہوتا تو وہ مائیں ان گھروں کو کبھی نہیں چھوڑتیں۔ اب جب شاید بہت پیچھے رہ جانے والے گھروں میں ان مسافر ماؤں کو کچھ بھی باقی نہیں تو اس لیے وہ مڑ کر ان گھروں کو نہیں لوٹتیں
اب وہ مائیں نہیں جانتی کہ ان کا کوئی گھر بھی تھا، اب تو یہ مائیں مسافر بنی بیٹھیں ہیں!
ایسی مسافر جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی!
ایسی مسافر جن کے نصیب میں بس سفر ہوتا ہے
طویل سفر لامتناہی سفر
نہ ختم ہونے والا سفر
جس سفر کی کوئی منزل نہیں ہو تی، پر سفر ہوتا ہے جو ہر رز طویل سے طویل تر ہوتا رہتا ہے
وہ مائیں جو سراسر محبت تھیں
اب ان ماؤں کی محبتیں بھی مسافر بنی ہیں
،،مسافر محبتوں!،،
اب وہ مائیں مسافر محبتوں کے ساتھ سفر کر رہی ہیں
وہ مائیں ہیں کوئی سنگ میل نہیں
اب وہ مائیں تھک گئی ہیں پر سفر ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا
وہ مائیں دھوکے کی نظر ہوئی ہیں

پہلا دھوکہ انہیں ریا ست نے دیا، پھر انہیں حکمرانوں نے دھوکہ دیا، پھر انہیں لیڈروں نے دھوکہ دیا، اب وہ مائیں نصیب کے ہاتھوں دھوکہ کھا رہی ہیں۔ بلوچستان کی مائیں دھوکے کا شکار ہوئی ہیں۔ ان ماؤں کا اعتبار توڑا گیا ہے۔ ان ماؤں کی دلوں سے کھیل کھیلا گیا ہے۔ ان ماؤں کے روحوں کو زخمی کیا گیا ہے۔ ان ماؤں کے ہاتھوں میں شکستہ بینر اور پھٹے پرانے پمفلیٹ تھما دیے گئے ہیں حالاںکہ وہ مائیں ان ہاتھوں سے اپنے بچوں کی مانگوں کو سنوارا کرتی تھیں۔ ان ہاتھوں سے اپنے پیاروں کی زلفوں سے بالوں کو ہٹھایا کرتی تھیں۔ وہ مائیں ان ہاتھوں سے ضد پہ آئے بچوں کے روشن چہرے تھامے ان چہروں کو بوسہ دیا کرتی تھیں۔ وہ مائیں اپنے ضدلے بیٹوں کے لیے اپنے کچے گھروں کے کچے کچن میں پراٹھا بنایا کرتی تھیں، اب ان ہی ہاتھوں سے وہ مائیں اپنے گیلے نین پونچھ رہی ہیں۔
وہ مائیں ریاست سے لیکر بلوچستان کے حکمرانوں اور لیڈروں کے دھوکے کا شکار ہوئیں ہیں!
ان مسافر ماؤں کے سروں پہ کوئی بھی پیار بھری چادر نہیں رکھتا!
ڈاکٹر مالک سے لیکر ثناء اللہ زہری تک
اسلام رئیسانی سے لیکر بزنجو تک
اختر مینگل سے لیکر ثناء بلوچ
اور اب جام کمال تک سب نے ان مسافر ماؤں سے دھوکہ کیا ہے اور آدھا سچ بولا ہے
اور ہم جانتے ہیں کہ آدھا سچ پو رے جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے
بلوچستان کی مائیں پورے جھوٹ کا نہیں پر آدھے سچ کا شکار ہوئی ہیں۔
پورا جھوٹ بہت پیچھے رہ گیا اور آدھا سچ ان ماؤں کے تار تار دامنوں سے اُلجھ گیا
اب وہ مائیں آدھے سچ کے ساتھ جی رہی ہیں اور آدھے سچ میں مر رہی ہیں
کیوںکہ آدھا سچ تو زہر قاتل ہوتا ہے اور وہ مائیں اس زہر قاتل میں جی رہی ہیں
کاش ان ماؤں کے ساتھ پورا سچ بولا جاتا اور انہیں جب ہی بتادیا جاتا کہ ان کے حکمران اور لیڈران ان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں اگر ان کے پیارے لوٹ آئے تو لوٹ آئے ورنہ وہ یاد بن جائیں گے!

اب بلوچ ماؤں کے اُٹھائے ہوئے بچوں کو کئی کئی سال بیت گئے ہیں اور وہ ان مسافر ماؤں کی یادوں میں عذاب بن کر رہ گئے ہیں، کتنی ماؤں کی تو یادیں بھی دھندلا گئی ہیں اور کتنی ماؤں کی تو یا دیں بھی مٹ رہی ہیں۔ اب تو ان ماؤں کے ساتھ بس تین چیزیں نہ مٹنے کے لیے رہ گئی ہیں
زخمی پیروں کے نشاں!
اداس گیلے گالوں پہ بہتے آنسوؤں کی لکیریں!
اور جلتے دل پہ بہت سا درد!
یہ تین چیزیں ان ماؤں سے کبھی نہیں جاپائیں گی

اس لیے وہ مائیں ہر آنے والی عید پہ اپنے پیارے بچوں کے کپڑے، جو تے، بلوچی چادریں لیے بہت دے درد کے ساتھ وہاں جمع ہوتی ہیں، جہاں اور نہیں تو اہلیانِ بلوچستان تو ان ماؤں کے دردوں کو دیکھ پائے اور اپنے نینوں سے اشک بہا پائے جو مائیں اب یاد میں جلتے جلتے پاگل ہوگئی ہیں اور اب ان ماؤں کو کچھ بھی یاد نہیں سوائے اس بات کے کہ ایک رات اس کے کچے مکان سے بندوق برداروں نے اس کے بیٹے کو گھسیٹتا ہوا گاڑی میں بند کیا تھا اور وہ ماں مورنی کی طرح اپنے مور کے پیچھے بھاگی تھی پر نہ وہ مور لوٹا اور نہ اس مورنی کا وہ بھاگنا رُکا۔
اسی دن سے وہ مورنی جیسی مائیں مسافر بنی ہیں
اور مسافر بھی ایسی جن کا سفر کسی آنکھ کو نظر نہیں آتا
اور پیر ہو تے ہیں جو چلتے ہی رہتے ہیں اور سفر ہوتا ہے جو دن بہ دن طویل تر ہورہا ہے
اور اب شال کی گلیاں ہیں
وہ مائیں ہیں
اور ماتم کے دن ہیں!
پاکستان کے کس گاؤں، گوٹھ، شہر، ضلع یا صوبے کی مائیں اپنے پیا رے گم شدہ بیٹوں کے لیے ان کی عید کی تیاری کا ساماں روڈوں پہ بکھیر رہی ہونگی اور ماتم کر رہی ہونگی؟

عید کے دن شال کی گلیاں ماتم کی گلیاں بنی ہوئی تھیں۔ کہیں کوئی ماں دل بچھا کہ بیٹھی رو رہی تھی تو کہیں کوئی بیٹی اپنے بابا کی یاد کا ماتم کر رہی تھی، کہیں بلوچی جوتے ان پیروں کو بلا رہے تھے، جو عرصہ ہوا آنکھوں نے نہیں دیکھے اور کہیں وہ کپڑے ان جسموں کو تلاش رہے تھے، جو عید کے دن نئے کپڑے پہن کے محبوبہ کو گلے ملتے تھے اور ماں کا بوسہ لیتے تھے۔ اس دن کوئٹہ کی شاہراہ پر یادوں کا بازار سا لگا ہوا تھا پر اس بازار کو پاکستان کے نام نہاد میڈیا نے نہیں دکھایا اس دن پاکستان کا نام نہاد میڈیا لبرٹی مارکیٹ میں خریدا ری کرتی حریم شاہ کے دودھ سے بھرے پستان دکھا رہی تھی جو سب کو مست کر رہی تھی
ایسے میڈیا کو کیا نام دیا جائے جو اپنی اسکریں پہ موٹے لال سفید پستان تو دکھائے
پر وہ دردوں کا بازار نہ دکھائے جس بازار میں بہت سی چیزیں تھیں پھر نہ کوئی خریددار تھا اور نہ کوئی انہیں لینے والا
ارے کوئی درد بھی بکتا ہے اور کوئی درد بھی خریدتا ہے؟
وہ مائیں ہیں جو مسافر ہوئی ہیں
وہ بھی محبت میں مسافر!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔