حیات بلوچ قتل، آج بھی احتجاجی مظاہرے جاری

215

حب، قلات، نوشکی اور بارکھان میں ریلیاں شمع روشن

تربت میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے اسٹوڈنت حیات مرزا کے قتل کیخلاف آج بھی بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔

کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے ایک ریلی نکالی گئی۔

ریلی کے شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر کر مین آر سی ڈی روڈ پر گشت کیا اور حیات بلوچ قتل کے خلاف نعرہ بازی کی۔

ریلی کے شرکاء نے لسبیلہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کی شکل اختیار کیا اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بلوچستان سے کیے گئے اپنے وعدوں سے مُکر چکا ہے، اس ریاست میں بلوچ کی مال و جان کی قیمت سے زیادہ پنجاب کے جانوروں کو قدر قیمت ہے۔

مقررین نے پاکستانی میڈیا پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی میڈیا بلوچ قتل پرخاموش تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے۔

مقررین نے پاکستان کے مذہبی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کشمیر اور فلسطین پر بلوچستان کے چوک چوراہوں پر بھنگڑے ڈالنے والے بلوچ کے خون پر اندھے ہوچکے ہیں۔

قلات سے آمد اطلاعات کے مطابق طلباء تنظیموں اور آل پارٹیز کی جانب سے نوجوان طالبعلم حیات بلوچ کی تربت میں قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی اور شہید لونگ خان چوک پر شمع روشن کئے گئے۔

ریلی میں آل پارٹیز اور طلبا تنظیموں سمیت شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکاء نے حیات بلوچ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں عوام کے جان ومال محفوظ نہیں، آئے روز اس طرح کے ناخوشگوار واقعات رونما ہورہے ہیں۔

ان حالات میں بلوچ قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، بلوچستان کی عوام اور طلبا آج سوگوار ہیں، اہل بلوچستان اور مظلوم طبقات حیات بلوچ کی غم کو کبھی نہیں بھول سکتے۔

انہوں نے حکومت بلوچستان سے شفاف تحقیقات اور شہید حیات بلوچ کے ورثا کو انصاف دلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ حکومت اسطرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائیں اور واقع میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

بارکھان اور نوشکی میں بھی طلباء طالبات سمیت سول سوسائٹی سڑکوں پر سراپا احتجاج بن گئے ہیں اس موقع پر بارکھان کے مرکزی چوک سے ریلی برآمد ہوا۔ ریلی میں شریک لوگوں نے ایف سی کے خلاف نعرہ بازی کی۔

نوشکی میں طلباء کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں شمع روشن کرکے سڑکوں پر مارچ کیا۔

مظاہرین نے ایف سی اہلکاروں کو مکمل سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

اس موقع پر مارچ میں شریک طلباء نے کہا کہ ایک ایف سی اہلکار کی گرفتاری سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہونگے۔ یہ ایک ذہنیت ہے جو بندوق کی نوک پر بلوچستان پر قابض ہے جب تک یہ ذہنیت ختم نہیں ہوگا ایسے واقعات رونما ہوتے رہنگے.

یاد رہے کہ 13 اگست کو تربت کے علاقہ ابسر میں پاکستانی فورسز نے ایک طالب علم حیات مرزا بلوچ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر 8 گولیاں ماری تھی، جس سے طالب علم حیات بلوچ کا موت واقع ہوا تھا۔