بلال احمد سمیت تمام لاپتہ افراد کو ان کے آئینی اور انسانی حقوق دیئے جائیں

389

بلوچ گلوکار میر احمد بلوچ کے بیٹے بلال احمد کے جبری گمشدگی کو دو سال مکمل ہونے پر کوئٹہ میں پریس کانفرنس اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کمپئن چلائی جارہی ہے۔

ایسے سماج جہاں انصاف کی فراہمی کیلئے متعین دروازے بند کردیئے گئے ہوں، وہاں انصاف تک رسائی کی ساری امیدیں محض صحافت سے جڑجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے کونے کونے سے روزانہ انصاف کے طلبگار کسی وزیر، جج یا پولیس سربراہ کے بجائے کوئٹہ پریس کلب پہنچتے ہیں۔ سب یہ امید لیکر آتے ہیں کہ صحافت جیسے مقدس پیشے سے وابسطہ کوئی سچا صحافی انکے درد کو آواز دیکر ایسے ذمہ داران تک پہچائے گا، جہاں سائل کی نحیف آواز نہیں پہنچ پارہی۔ ان خیالات کا اظہار حوران بلوچ لاپتہ بلال احمد کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج میں اپنا جو مدعا آپ صحافی حضرات کے سامنے پیش کررہا ہوں، یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ بلوچستان کا ہر تیسرا گھر جبری گمشدگی کے اس سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ اب ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جبری گمشدگی جیسے، اس غیر انسانی تسلسل کا ایک شکار بلال احمد ولد میران بخش عرف میر احمد بلوچ بھی ہے۔

حوران بلوچ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بلال احمد ولد میراحمد بلوچ سکنہ مستونگ کو دو سال قبل 31 اگست 2018 کو نوشکی کے ایک پکنک پوائنٹ زنگی ناوڑ سے پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے اس وقت لاپتہ کیا، جب وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ پکنک منا رہے تھے۔ بلال احمد معروف بلوچ قومی گلوکار میراحمد بلوچ کے صاحبزادے ہیں۔

بلال احمد سمیت دیگر حراست میں لیئے گئے افراد کی فورسز کی تحویل میں تصاویر بھی منظر عام پر آئے۔

انہوں نے کہا کہ بلال احمد کو حراست میں لینے کے بعد، نا انہیں پولیس کے حوالے کیا گیا اور نا ہی انکے خلاف کوئی ایف آئی آر کاٹی گئی، نا کسی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جبکہ فورسز نے انکی گرفتاری کی تصدیق کی تھی، جس کی خبر روزنامہ جنگ میں بھی شائع ہوئی اور بلال احمد سمیت دیگر حراست میں لیئے گئے افراد کی فورسز کی تحویل میں تصاویر بھی منظر عام پر آئے لیکن بعد ازاں ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی۔ گرفتاری ظاہر کرنے کے بعد قانون کے مطابق انہیں نا جیل منتقل کیا گیا اور نا ہی کسی عدالت میں پیش کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ انتہائی سادہ اور ملکی آئین و قانون کے عین مطابق ہے کہ فورسز کے غیر آئینی تحویل میں قید بلال احمد کو ملکی آئین و قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے۔ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتی کاروائی کے بعد بیشک ملکی قوانین کے مطابق سزا دی جائے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی اداروں کو اپنے ہی عدالتوں اور آئین پر بھروسہ نہیں ہے جس کے باعث وہ اپنا الگ ہی عدالت اور حکمرانی قائم کرچکے ہیں۔

حوران بلوچ نے کہا کہ بلال احمد کے جبری گمشدگی کی تفصیلات وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس جمع کیئے جاچکے ہیں جبکہ ملکی عدالتوں میں بھی ان کے حوالے سے ہم کاغذات جمع کرچکے ہیں لیکن تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ ملکی عدالتیں برائے نام لاپتہ افراد کے کیسز کے حوالے سے کمیشن بنائے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بلال احمد سمیت تمام لاپتہ افراد کو ان کے آئینی، قانونی اور انسانی حقوق دیئے جائیں، جب تک ہمیں انصاف نہیں ملے گا ہم لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے اور ملکی عدالتوں سے مایوسی کی صورت میں بین الاقوامی عدالتوں سے رجوع کرینگے۔