شہید لیفٹیننٹ حمید بلوچ عرف شاہ زیب جان – سُھراب بلوچ

700

شہید لیفٹیننٹ حمید بلوچ عرف شاہ زیب جان

تحریر : سُھراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بقول بلوچ فدائی شہید مسلم بلوچ عظیم فیصلے وہ انسان لے سکتے ہیں، جو زندگی کے حقیقی فلسفے کو سمجھ سکیں۔ یہ زندگی سے پیار کی انتہا ہے، ایک انسان ایسا فیصلہ لینے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ اپنی انفرادی زندگی کو داؤ پر لگا کر مجموعی قوم کی زندگی کو بچایا جاسکے اپنی ماؤں کی عزت و آبرو اور اپنی بہنوں کا دوپٹہ، اپنی قوم و سرزمین کی ساحل و وسائل، زبان، کلچر، تاریخ، رسم و رواج کو غیروں سے محفوظ رکھ سکیں۔ وہ انسان جو زندگی کا حقیقی فلسفہ سمجھیں، انسانی زندگی کی قدر و احترام کرنا سیکھیں، اپنی قوم کی غلامی و بے بسی کو محسوس کریں، ان کے قریب اپنی انفرادی زندگی و انفرادی خواہشات سے مجموعی قومی زندگی بالاتر ہوتا ہے۔

جذبہ حب الوطنی، قوم و سرزمین کے لیے قربان ہونے کی جذبہ ہے، یہ ایک عام انسان کو تمام انسانوں سے منفرد کرتا ہے ۔ یہ منفرد انسان زمین زادے ہی ہوتے ہیں جو شعور کی انتہا پر پہنچ کر اپنی قومی مقصد { آزادی } کی خاطر اپنی زندگی کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ تاریخ میں یہ کردار سنہرے لفظوں میں یاد کیے جاتے ہیں۔غلام قوموں کی تاریخی ہی انہی زمین زادوں کی قُربانیوں اور بہتے ہوئے لہو سے لکھ کر دنیا میں زندہ ہوسکتے ہیں۔

میرے دیس بلوچستان کی بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیاں، ندیاں، دشت، میدان یہ گواہی دیتے آرہے ہیں کہ جب بھی سرزمین بلوچستان نے خود کو ستم گروں سے غیر محفوظ رکھنے کیلئے صدا دی ہے، سرزمین کے حقیقی فرزندوں نے سرزمین کے آواز پر لبیک کرکے اپنے ہی لہوّ سے ہی جوئے خون بہا کر اپنی جنت نما سرزمین کو دشمن کی پنجوں سے آزاد کرنے کے لیے امر ہو کر تاریخ میں سرخرو ہوگئے ہیں۔

انہی زمین زادوں میں سے ایک شہید حمید بلوچ عرف شہید شاہ زیب جان تھے۔ آپ نے بہت ہی کم عمری اور قلیل مدت میں خود کو بلوچ قومی تحریک کے سچّے محافظ اور نڈر قومی سپاہی کی حیثیت سے منوایا۔ شہید شاہ زیب جان جیسے زمین زادوں کی کردار و قربانیوں کو صرف ایک صفحہ کی گرفت میں لینا کسی سرکش ندی پر کچی اینٹوں سے بند باندھنے کے مترادف ہے۔ شہیدوں کی دیئے ہوئے قربانیاں اور بلوچ جہد مسلسل میں ادا کرتے ہوئے اعمال مجھ جیسے ادنیٰ سی لکھاری کی دو صفحوں میں لکھے ہوئے تعریفی کلمات کی محتاج بھی نہیں ہے۔

شہید شاہ زیب جان انتہائی نڈر و بے باک انسان اور اپنی گلزمین سے لامتناہی عشق کرنے والا، کشادہ نظر و دوست پرور ساتھی تھے۔ شہید شاہ زیب جان ایک مستقل مزاج و خوش اخلاق انسان تھے۔ میں نے ہر وقت شہید شاہ زیب جان کو ایک حقیقی انقلابی دوست کی روپ میں پایا۔ شہید شاہزیب جان ایک حقیقی انقلابی جہد کار کی تعریف میں پورے اترتے تھے۔ آپ میں کامریڈ شپ کی پوری صلاحیت و خاصیت موجود تھی۔ آپ ایک حقیقی قوم پرست قومی جہد کار تھے۔ شہید شاہ زیب جان جنگی صلاحیتوں سے لیس ایک جنگی کمانڈر تھے۔ جب بھی ایک بار آپ شہید سے ملتے تو ضرور آپ کے درشن کے پیاسی ہوجاتے، دوبارہ شہید سے ملنے کی خواہش مند ہوتے۔ شہید شاہزیب جان کبھی بھی مایوسی و آرام پسندی کو اپنی قریب آنے نہیں دیتے۔ آپ ایک فُل ٹائم سرمچار تھے آپ کی شخصیت کو شو بوائے سرمچاری سے دور دور کا واسطہ نہ تھے۔

شہید شاہ زیب جان بلوچ سرزمین کے ایک غیور اور روشن ضمیر فرزند تھے۔ آپ خالی خولی و بے مقصد و روایتی بحث و مباحث سے ہٹ کر عملی کاموں کو ترجیح دینے والے انسان تھے۔ ہر وقت اپنی قومی مقصد و قومی جدوجہد آزادی کی خاطر عملی کام کرنے پر فکرمند تھے۔ جب بھی شاہ زیب جان سے ملاقات نصیب ہوتا تھا تو ان کی بحث و مباحث کا محور بلوچ، بلوچستان قوم، غلامی، آزادی اور جدوجہد آزادی کی سفر میں عملی کردار ادا کرنے پر تھے۔ ہر دیوان اور محفل میں ساتھیوں کو تلقین کیا کرتے تھے یہ جنگ و جہد کو اپنا سمجھ کر اپنا کردار ادا کریں، جدوجہد آزادی میں معمولی سے کمی و کوتاہیوں کو ختم کرنے کے لیے مایوسی گلہ و گلہ شونی سے نکل کر عملی کردار ادا کرنے پر دھیان دیں۔

تمام نظریاتی دوستوں کے بے وقت رُخصتی انسان کو تکلیف سے دوچار کردیتے ہیں۔ لیکن کچھ دوست ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی وقت سے پہلے شہادت انسان کو بہت زیادہ تکلیف و اذیت پہنچاتے ہیں۔ شہید شاہ زیب جان اُن نظریاتی دوستوں میں سے تھا۔ جن کی غمِ جدائی نے بُلند حوصلہ کے مالک سورگر کو پریشانی سے چور چور کر دیا اور ہاں شاہ زیب جان آپکی ہمت و بلند نامی کے سامنے شاشان کی بُلندی کا غرور گھمنڈی بھی بے بس ہے اور شاشان بھی اب آپ کے نام پر فخر کرتی ہے کہ میں نے شاہ زیب جان و مہیم جان جیسے نڈر سپوت پیدا کئے، میھی اب بھی آپ شہید مہیم جان اور شہید جاوید جان کی جدائی میں خون کی آنسو رو رہا ہے اور بریدگ اب بھی خود کو ملامت زدہ قرار دے رہی ہے کہ مجھ میں کونسی کمی و کوتاہی تھی کہ میں اپنی بچّوں کو دشمنوں سے محفوظ نہ رکھ سکا۔

شاہ زیب آپ اور آپکے شہید ساتھیوں کی بے وقت رخصتی نے پورے بلوچ قوم کو غم سے نڈھال کر دیا۔ شاہ زیب جان آپکے اپنے شہید ساتھیوں کی بلوچ گلزمین میں ٹپکتے ہوئے لہؤ نے آپکے نظریاتی دوستوں کو بہت بڑے حوصلے سے نوازا۔ شاہ زیب جان آپکے نظریاتی دوست اب بھی میدان جنگ میں دشمنوں سے برسرپیکار ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔