شہید صابر علی بلوچ – قندیل بلوچ

783

شہید صابر علی بلوچ

تحریر قندیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید صابرعلی بلوچ گریشہ گنبد میں صوالی بلوچ کے گھر پیدا ہوئے، شہید صابر ابتدائی تعلیم کے بعد تعلیم جاری نا رکھ سکے اور اسکول کو خیرباد کہہ دیا۔ وہ اپنے زمینوں پر کام کرتا رہا۔ اسی وقت اسکے پڑوس میں رہنے والے اسکے قریبی رشتہ داروں کو پاکستانی فوج نے بے دخل کر دیا، جو اپنے ہاتھوں سے بنے بنائے گھر سے بلا وجہ بے دخل ہوگئے، ان لوگوں کے گھروں کو فوج نے اپنے کیمپ میں تبدیل کردیا ۔

پھر روزانہ کے بنیاد اس کیمپ میں فوج کے ہاتھوں بے گناہ بلوچوں پر تشدد ہوتا، لوٹ کھسوٹ ہوتی۔ جب صابر جیسے غیرت مند نوجوان نے اس سارے ظلم اور بے رحمی اور لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخلی کو دیکھا تو اس سے برداشت نہیں ہوا۔ وہ وہاں اپنے گھر سے ڈام کے علاقے کام کرنے کے بہانے سے نکل کر پہاڑوں میں جاکر مزاحمت کاروں کے ساتھ شریک ہوا۔ اسکے والد اور گھر والے یہی سوچ رہے تھے کہ صابر محنت اور مزدوری کرنے کے لیے کہیں گیا ہے۔ آج تک علاقے کے لوگوں میں کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ صابر دشمن کے خلاف لڑنے گیا ہے۔ جب 2 جولائی کو اسکی شہادت کی اطلاع ملی تو علاقے کے لوگ اسکے اس بہادرانہ کارنامے سے اپنے ہونٹوں کو چبانے لگے۔ گذشتہ کئی سالوں سے صابر دشمن کے خلاف برسر پیکار رہے۔ انہوں نے نہ صرف گریشہ گنبد کے ان رشتہ داروں کی گھر سے بے دخلی کی وجہ سے پہاڑوں کی رخ کیا تھا بلکہ وہ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں غریبوں کے گھروں کو کیمپ اور قید خانے بنانے کے خلاف مزاحمت کرتا رہا۔ صابر سمجھتا تھا کہ دشمن کو صرف بندوق سمجھا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔

صابر ایک بہادر، سمجھدار، ایماندار، مزاحمت کار تھا۔ صابر نے بلوچستان کے پہاڑوں کے پتھروں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ مرتے دم تک تمہارے لیے مزاحمت کرتے رہینگے اور مرتے دم تک مزاحمت کرتا رہا۔

6 جولائی کی صبح ریاستی دلال اور ریاستی فوج نے ساتھ مل کر باہڑی کے پہاڑوں میں گھات لگا کر صابر کو ۔انکے دو اور بہادر ساتھیوں کے ہمراہ شہید کر دیا۔

دوسرے ساتھیوں میں شہید لیفٹینٹ حمید بلوچ، شہید لیفٹینٹ انورجان بلوچ تھے، جو اپنے وطن کی غلامی کی خاطر دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ لیفٹینٹ شہید حمید جان بلوچ ، لیفٹینٹ شہید انور جان بلوچ ، سپاہی شہید صابر جان بلوچ تمہارے جرت کو بلوچ قوم سلام پیش کرتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔