کوئٹہ : آن لائن کلاسوں کے خلاف طلباء تنظیموں کا مظاہرہ

89

  بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس    احتجاجی مظاہرہ ۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں تنظیموں کے رہنماؤں نے کہا کہ کورونا کی عالمی وباء نے جہاں انسانی زندگی میں متعدد مشکلات پیدا کردیے وہاں تعلیم کے حوالے سے جو مشکلات و مسائل سامنے آرہے ہیں وہ ریاست پر سوالیہ نشان ہیں۔ کرونا  کے بعد تعلیمی مسائل میں سب سے اہم چیز جس پر اس وقت انہتائی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے وہ اس ملک کی تعلیمی نظام کی دو حصوں میں تقسیم کی ہے۔ ایک حصہ وہ تعلیمی نظام جو اشرافیہ طبقہ کے لیے ہے جہاں طلبہ کو کسی بھی قسم کے مشکلات کا سامنا نہیں ہے دوسرے حصے میں وہ نظام جو پسے ہوئے طبقہ کے لیے جہاں طلبہ کو کسی بھی قسم کی سہولیات میسر نہیں ہے اور وہ ہر قسم کے مشکلات کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طلبہ پسے ہوئے طبقات میں شامل ہیں جہاں ان کو اس جدید دور میں انٹرنیٹ جیسے سہولیات میسر نہیں ہے اور دوسری جانب حکومت اور تعلیمی اداروں کے انتظامیہ صرف اشرافیہ طبقے کے طلبہ کو مدنظر رکھ کر اپنے تعلیمی منصوبے بنارہے ہیں جیسا کہ حالیہ وباء کے بعد حکومت اور انتظامیہ نے تعلیمی نظام کو آئن لائن کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بلوچستان، ڈی جی خان، خیبر پختونخواہ، گلگت، کشمیر اور دیگر علاقوں کے طلبہ شروع دن سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کرتے آرہے ہیں کیونکہ بلوچستان، ڈی جی خان گلگت بلتستان، پختونخواہ اور ملک کے دیگر پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ سروس موجود نہیں ہے یا بند کردیے گئے ہیں، لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن اپنے فیصلے پر بضد ہے اور باقاعدہ یکم جون سے آئن لائن کلاسز کا آغاز کرچکے ہیں جو انتائی افسوناک ہے جبکہ ریاست اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی پسے ہوئے طبقات کے طلبہ کے لیے ان کو غیر سنجیدگی کو بھی عیاں کرتی ہے۔ ریاست کے اس فیصلے سے یہ امر واضح ہوچکا ہے کہ ریاست کی تعلیمی نظام اور منصوبے صرف اس ملک کے اشرافیہ طبقہ کے لیے ہے۔

مزید کہا کہ اِس وقت ہزاروں طالبعلم جو بلوچستان سمیت پنجاب اور دیگر صوبوں میں زیرِ تعلیم ہیں اور کورونا وائرس جیسے عالمی وبا اور جامعات سیل ہونے کے باعث اپنے آبائی علاقوں میں جا چُکے ہیں جہاں انٹرنیٹ اور بجلی جیسے بنیادی سہولت موجود نہیں ہیں۔ آن لائن کلاسز کے آغاز کے باعث اِن طالبعلموں کی تعلیمی تسلسل میں خلل کا پیدا ہونا یقینی ہے اور ایسے نامساعد حالات میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کیجانب سے بلوچستان سمیت ملک بھر کے طالبعلموں کو درپیش مسائل کا ادراک کیے بغیر آنلائن کلاسز کا اجرا کرنا نہایت ہی افسوسناک صورتحال ہے

ہم بلوچستان کے طلبہ قطعاً جدید ٹیکنالوجی یا آئن لائن کلاسز کے خلاف نہیں ہے بلکل یہ بہت ہی حوصلہ افزا صورتحال ہوگا جب ہم اس وباء کے دوران بھی اپنے تعلیمی سلسلے کا جاری رکھے لیکن ہمارے طلبہ کے پاس انٹرنیٹ اور بجلی جیسے بنیادی سہولیات نہیں ہیں تو ہم کہاں سے تعلیم حاصل کریں؟ اگر ریاست تعلیمی نظام کو آئن لائن کرنے میں سنجیدہ ہے تو سب سے متاثرہ علاقوں میں انٹر نیٹ سروس کو فلفور بحال کریں۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقے یا دیہات و پہاڑی علاقے تو دور کی بات کوئٹہ کے بعد بلوچستان کے سب سے بڑے شہر یعنی قلات، تربت، پنجگور، آوران، سوراب اور کوہلو اور ڈیرہ بگٹی جیسے علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی سہولیات نہیں ہے تو ہر ذی شعور انسان اندازہ لگاسکتا ہے کہ بلوچستان میں کیا صورتحال ہوگی۔ حاکم وقت اور تعلیمی اداروں کے انتظامیہ کا یہ کہنا کہ جن طلبہ کے پاس انٹرنیٹ کے سہولیات موجود نہیں ہے وہ اپنے سمسٹر کو فریز کریں تو اس امر کا مطلب واضح ہے کہ پورے بلوچستان، ڈی جی خان خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے ہزاروں طلبہ کو اپنے سمسٹر فریز کرانے ہونگے جو انتائی تشویشناک صورتحال ہے۔جہاں تک بات کرونا جیسے وباء کی ہے تو اب تک امریکہ جیسا سپر پاور بھی یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہے کہ یہ وبا ء کب ختم ہوگا۔ ہم بلوچستان کے طلبہ ریاست سے سوال کرتے ہیں اگر یہ وباء خدانخواستہ آنے والے سال تک جاری رہا تو آپ کے اس منصوبے کے مطابق ہمیں اپنے چار سمسٹر فریز کرانے ہونگے؟ اگر یہ ریاست کا تعلیمی منصوبہ ہے تو ریاست ہمیں واضح کردیں کہ یہ یونیورسٹیاں اور تعلیمی منصوبے بلوچستان، ڈیرہ جات، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کے طلبہ کے لیے نہیں ہے۔ ہم ریاست اور تعلیمی اداروں کے انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ خدارہ اپنے اس تعلیمی منصوبے پر نظر ثانی کریں اورہماری تعلیم کیرئیر کو برباد ہونے سے بچائے

رہنماؤں نے مزید کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) آن لائن کلاسز کیخلاف ہر فورم پر جد وجہد کریں گے اور اِس ضمن میں لیگل کاروائی کے لیے عدالت سے رجوع کر یں گے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اعلامیہ کیخلاف آج کوئٹہ میں ایک پرامن احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا جائے گا جبکہ سوشل میڈیا میں آگاہی مہم کا آغاز بھی کیا جائے گا۔
آخر میں ہم بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام طلبہ تنظیموں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ آن لائن کلاسز کا مسئلہ بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام طلبہ تنطیموں کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کے لیے تمام طلبہ تنظیمیں اور کونسلز کو سنجیدگی اختیار کر کے سنگل ایجنڈے پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور بلوچ سٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) دیگر تمام بلوچ طلبہ تنظیموں اور بلوچ کونسلز کو مشترکہ جدوجہد کا حصہ بننے کی دعوت دیتی ہیں۔