بلوچستان میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیں ہورہی ہے ۔ ماما قدیر

233

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3983 دن مکمل ہوگئے۔ مستونگ سے تعلق رکھنے والے داد محمد بلوچ اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا آج بھی ذاکر مجید سمیت ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں اغواء کرکے لاپتہ کیئے گئے ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہاں ہیں اور کس حال میں ہونگے اور کیسی کیسی اذیتیں سہہ رہے ہیں ان کی ماؤں پہ کیا گزرہی ہے یہ صرف وہی مائیں جانتی ہیں کہ جس کا بیٹا زندانوں میں قید ہے جو لوگ آج پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی قید میں ہیں انہوں نے نا ہی چوری کی ہے ناہی انہوں نے کسی کا گھر اجھاڑا ہے وہ تو صرف قومی بقاء کی زندانوں میں قید ہیں۔

ماما قدیر نے مزید کہا دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والوں کی زندگیاں یکساں اہمیت رکھتے ہیں اگرچہ دنیا میں مختلف ممالک اپنے مفادات کے لئے جان بوجھ کر ان واقعات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ بلوچوں پر پاکستانی فوج کی ظلم و جبر آج کی بات نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان روز اول سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی آرہی ہے مگر ایک دہائی سے پاکستانی فوج نے بلوچ نسل کشی کے لئے ایک پالیسی اپنائی ہے کہ اٹھاؤ غائب کرو، مارو پھینک دو۔ بلوچستان میں ناہی کوئی ریاستی قانون نافذ ہے ناہی بین الاقوامی قوانین کی پاسداری ہورہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان آج ریاستی اداروں کا تجربہ گاہ بن چکا ہے جہاں لوگوں پہ بم برسائے جاتے ہیں انہیں سر عام قتل کرتے ہیں اور انہیں اٹھا کر سالوں سال لاپتہ کرکے انہیں مار دیا جاتا ہے بلوچستان میں اس وقت وفاق کے تحت ایک صوبائی اسمبلی کام کر رہی ہے جس کے پاس ناہی اختیار موجود ہے ناہی عوامی سپورٹ موجود ہے۔