قائد اعظم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل بلوچ نوجوانوں کی فوج سے جھڑپ میں مارے جانے پر شدید ردعمل

2694

‎احسان بلوچ اور شہداد بلوچ جنہوں نے پاکستان کے ایک اعلیٰ یونیورسیٹی سے ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی تھی، انکی تصاویر اور ویڈیوز، ہفتے کے روز سے ان کے موت کی خبر کے بعد سے ہی سماجی رابطوں کے ویب سائٹوں پر وائرل ہیں۔

‎شہداد بلوچ اور احسان بلوچ جمعے کے روز پاکستانی فوج کے ہاتھوں جانبحق ہوگئے تھے، جسے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) “پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور انکے ڈیتھ سکواڈ” کے ساتھ قلات بلوچستان میں ایک جھڑپ قرار دے رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، دونوں نے کچھ عرصے قبل ہی بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی تھی۔

‎دونوں نوجوان اپنی سٹوڈنٹ ایکٹویزم، کی وجہ سے وسیع پیمانے پر پہچانے جاتے تھے، وہ دونوں اسلام آباد کی ممتاز تعلیمی ادارے قائد اعظم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباء تھے۔ شہداد بلوچ، اپنی ماسٹرز کی ڈگری ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک سٹڈیز میں کیو اے ای سے مکمل کرنے کے بعد، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز میں ایم فل پروگرام کے لئے داخلہ لے چکے تھے۔

‎جبکہ، احسان بلوچ نے کیو اے ای اسلام آباد سے جینڈر سٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ احسان تُربت یونیورسٹی سے پہلے انگلش لٹریچر میں بھی ماسٹرز کرچکے تھے۔

‎دونوں ہی طلباء کے سابقہ ساتھیوں، و اساتذہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں فیسبک اور ٹوئیٹر پوسٹس میں انکی موت کی مذمت کی گئی۔

‎ایک دل کو چھونے والی فیسبک پوسٹ میں، سعدیہ تسلیم، کیو اے ای کی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک سٹڈیزکی لیکچرار نے، ریاست کی سخت گیر طریقہ عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ۔

‎“انکے درد کو دور کرنے کی خاطر چیزوں کو درست کرنے کے بجائے، ریاست منہ موڑنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ جب یہ لوگ اپنا سر دیوار پر مار کر اپنی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ریاست اسے ایک جرم کی طرح دیکھتی ہے، اور پوری طاقت کے ساتھ ردعمل دکھاتی ہے”

‎انہوں نے مزید کہا “… جو بات مجھے زیادہ پریشان کررہی ہے، وہ ہماری اپنی غفلت، ہماری ذاتی خوشی، ہماری لاپرواہی ہے کہ ہم کیسے سوچنے والے اور سوال کرنے والے نوجوانوں کے ساتھ معاملات حل کریں، جو خود کو “اسٹیٹس کو” کا شکارسمجھتے ہیں،”

‎شہداد سے اپنے ایک گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے، سعدیہ تسلیم کہتی ہیں “ شہداد نے اپنا درد میرے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔ اس نے مجھے اپنی کالج کے دنوں کی کہانیاں سنائیں، جن تجربات سے بحیثیت طالب علم اور ایکٹویسٹ وہ گذرا تھا۔

میں اسکے دل کا درد محسوس کرسکتی تھی، جو ان کہانیوں کے ساتھ جُڑی ہوئی تھی۔ کسی جگہ پر، مجھے ڈر لگتا کہ شاید وہ ٹوٹ جائےگا۔ اسکے آنکھوں میں آنسو دکھائی دینے لگتے، لیکن اس نے اپنے طمانیت کو برقرار رکھا۔ وہ دن میرے خیالوں کی گہرائیوں میں گھر کر چکا تھا۔ اور وہ میرے خواہش سے زیادہ مجھ تک لوٹ کر آتا ہے۔”

‎اپنی پوسٹ میں، انہوں نے شہداد کے یونیورسٹی کی ایکٹیوٹیز پر بھی روشنی ڈالی “ کیو اے ای میں، شہداد سیاست میں مشغول تھا۔ اس نے بے حد کوشش کی کے اس ماحول میں فِٹ ہوجائے۔ جب پہلی مرتبہ میں نے اسے کسی لڑکی کے ساتھ گھومتے پھرتے دیکھا، ہم دونوں نے مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ ہم دونوں اس حقیقت سے خوش تھے کہ اب وہ کچھ سکون حاصل کررہا ہے۔ جو شاید اسکے زخموں کو بھرنے میں مدد کرسکیں گی۔ وہ ہمیشہ مجھ سے اپنے سول سروسز کی امتحانات میں شامل ہونے کے منصوبے کے بارے میں بات کرتا۔ دل سے مارکسٹ اور بے انتہا مطالعہ کرنے والا، وہ کتابوں کے بارے میں گفتگو کرتا کہ یہ آپکو پڑھنی چاہیئے۔ مجھے اس میں دکھائی دیتی تھی، وہ امید اور لگن آگے بڑھنے کی، اپنی زندگی کو قابو میں لاکر اور اسے بہتر بنانے کی۔”

‎اپنے فیسبک پوسٹ کے اختتام پر انہوں نے کہا “اگر ایک نوجوان، روشن دماغ بی ایل اے کی جانب راغ ہوسکتا ہے( یہ جانتے ہوئے بھی ریاست کے پاس موجود طاقت کیخلاف جیتنا ناممکن ہے)، ہم تمام لوگ( جو مین اسٹریم کا حصہ ہیں) ہم نے اسے فیل کیا ہے۔ ہم نے شہداد کی اس طرح قدر نہیں کی، ہم ناکام رہے اس کے لیئے وہ جگہ بنانے میں، جس کے وہ لائق تھا، ہم ناکام ہوئے اسے یہ باور کرانے میں کہ وہ بحیثیت بلوچ اس ملک میں عزت کی زندگی گذار سکتا ہے۔ ہم نے تمہیں فیل کیا شہداد اور کوئی بھی پشیمانی تمہیں واپس نہیں لاسکتی۔ کاش میں نے تمہیں بتایا ہوتا کہ تم میرے لیئے کتنے اہم تھے، بحیثیت طالب علم اور اس سے بڑھکر ایک حقیقی طور پر خوبصورت انسان کی حیثیت سے۔ تمہارے لئے “آر آئی پی” لکھنا دردناک ہے۔ تم یاد رکھے جاؤگے۔”

‎اسی طرح نامور انسانی حقوق کی کارکن اور سابق کیو اے یو میں ڈائرکٹر آف سینٹر آف ایکسیلینس جینڈر سٹڈیز فرزانہ باری نے احسان بلوچ کی موت پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ، اپنے ایک بہترین طالب علم احسان بلوچ جو کہ ڈیپارٹمنٹ آف جینڈر اسٹڈیز کیو اے یو سے تعلق رکھتا تھا کی ایک اور طالب علم کے ہمراہ فوجی آپریشن میں مارے جانے کی خبر سے انتہائی حیران اور صدمے میں ہوں۔ ہم اپنے نوجوانوں کے انتخاب کیلئے کیا چھوڑ رہے ہیں اور ہم کیسے انکی زندگیاں ضائع کررہے ہیں؟”

‎اس سانحے پر انسانی حقوق کی کارکن اور طلبہ رہنما عروج اورنگزیب نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا، “قائد اعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے دو طالب علم، شہداد بلوچ اور احسان بلوچ قلات میں مارے گئے ہیں۔ اسی لئے ریاستی جبر طلبہ کا اور ایک سوشل مسئلہ ہے! اس وقت مزید دو موت برداشت نہیں کرسکتی۔ اس طرح بار بار صدمے اثر کرتے ہیں: آپ محسوس کرنا چھوڑ دیں۔ درد کو درگزر کرنے کی خاطر۔ آپ منہ موڑ لیں!”

‎عالیہ امیر علی، جینڈر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کیو اے یو کی ایک اور لیکچرار اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہتی ہیں “ کوویڈ ۱۹ کے پرچھائی میں، ریاستی دہشتگردی جاری ہے۔ ساجد حسین اور عارف وزیر کی قتل کو ہضم کرنا ممکن نہیں تھا، اب ایک اور خبر آئی ہے کہ میرے ایک روش دماغ اور کیو اے یو کے بہترین طالب علم، احسان بلوچ، مارے گئے ہیں اپنے لوگوں اور سرزمین کی دفاع کرتے ہوئے غلامی سے۔”

‎ایک سیاسی کارکن، فیض بلوچ نے، ٹویٹ کرتے ہوئے کہا: “اعلی تعلیم یافتہ طالب علم شہداد ممتاز نے احسن اقبال سے حامد میر کے پروگرام میں سخت سوال پوچھے۔ وہ ایک مرتبہ جبری گمشدگی کا شکار بنا، اور پھر کیو اے یو یونیورسٹی میں تشدد کا نشانہ بنا اور مجبور کیا گیا کہ مسلح جدوجہد کا حصہ بنے۔”

‎انسانی حقوق کی خاطر کام کرنے والی ایوارڈ یافتہ کارکن گلالئی اسماعیل نے ٹوئیٹر پر کہا: “عارف وزیر کو دفنانے سے پہلے ہی، پاکستان آرمی نے دو نوجوان بلوچوں کو قلات میں قتل کردیا، شہداد بلوچ اور احسان بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی کے گریجوئیٹ ہیں۔ دونوں ہی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بلوچستان کے معدنیات استحصال اور انسانی حقوق کی پائمالیوں پر تنقید کرتے تھے”

گلالئی اسماعیل نے مزید کہا کہ: “پاکستانی ریاست مسلح افراد کو دوبارہ سے ری آرگنائیز ہونے کی اجازت دے رہی ہے، چندہ اور بھرتی پختونخواہ میں لیکن پڑھے لکھے، دانشمند، بہادر قوم پرست پشتون اور بلوچوں کو بے رحمانہ طور پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنارہی ہے جو سوال اٹھا رہے اور استحصال کو روکنے کی بات کررہے ہیں۔”

‎مشہور ٹوئیٹر استعمال کرنے والی، مفکر اور ڈویلپمینٹ کنسلٹنٹ، سلمیٰ جعفر نے کہا: “ایک سال ایم فل پروگرام پر ایک معتبر ادارے سے، پبلک فارم پر بہت ہی ذہین اور تنقیدی سوال اٹھانا، میوزک اور ایکٹیوزم لیکن اگلے سال جبری گمشدگی، رہا ہوجانا لیکن اس مرتبہ آپ بندوق اٹھالیتے ہیں۔ ظلم و جبر کی پوری داستان ایک بلوچ نوجوان کے کہانی میں”

‎توبہ سید، کیو اے یو کی ایک فیکلٹی رکن، کہتی ہیں: “مجھے احسان کو اچھے سے یاد ہیں۔ اس جیسے روشن دماغ نوجوان کے بارے میں جو جینڈر سٹڈیز میں فلم کلب شروع کرنا چاہتا تھا کے بارے میں بندوق اٹھانے کی خبر مجھے ناامید کردیتی ہے۔ ایک شخص جو میرے ڈیپارمنٹ میں طالب علم تھا، ایک روشن دماغ اور سوچنے والا نوجوان۔ اب تک یقین نہیں ہورہا۔”

‎صہیب بلوچ، ایک ایکٹیویسٹ ہیں، وہ اپنے ایک ٹویٹ میں کہتے ہیں: “تین ماہ قبل وہ، ایک ایم فل اسکالر کی طور پر، کراچی یونیورسٹی میں لیکچر دے رہے تھے، کل وہ ریاستی ایماء پر چلنے والے ڈیتھ سکواڈ سے اپنی جان بچاتے ہوئے مارے گئے۔ پاکستانی ریاست کے زیر تسلط بلوچ نوجوانوں کی زندگیاں اس نہج پر پہنچ چکی ہیں۔”

‎جمال بلوچ، ایک اور ایکٹیوسٹ، لکھتے ہیں: “شہداد اور احسان، دو بلوچ نوجوان گذشتہ روز قلات بلوچستان میں جام شہادت نوش کرگئے۔ دونوں کیو اے یو اسلام آباد سے ماسٹرز ڈگری ہولڈرز تھے۔ یاد رہے انہیں ایک مرتبہ کیو اے یو اسلام آباد میں ملاؤں اور پاکستانی خفیہ اداروں نے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔”

‎ندا کرمانی، لاھور کی معتبر یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کی ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر، نے کہا: “دو بہترین، اور واضح بات کرنے والے نوجوان، شہداد اور احسان، دیوار سے لگائے گئے۔ سوچئے وہ کتنے لاچار ہوئے ہونگے۔ یہ کیا ہے جو ریاست کرتی ہے؛ یہ دبانے کی کوشش کرتی رہتی ہے اور جن ہمارے نوجوانوں کو اور کچھ دکھائی نہیں دیتا لیکن لکیر کو پار کرکے تشدد کی جانب راغب کرتی ہیں، وہ اپنی بربریت کی صفائی پیش کرسکتے ہیں۔”

‎عبداللہ عباس بلوچ، ہیومن رائٹس کمیشن آف بلوچستان کے ترجمان، نے کہاں “میں شہداد کو انکی سوشل میڈیا پر وائرل تصویر کی وجہ سے جانتا ہوں جو کچھ سال پہلے شائع ہوئی تھی۔ پنجاب میں بلوچ طلبہ کے ساتھ ناروا سلوک کیخلاف شکایت کرنے کے ردعمل میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بے عزت کئے گئے تھے۔ وہ جبری گمشدگی اور تشدد کا بھی نشانہ بنے تھے، شہداد اور احسان قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے اپنی ماسٹر کی ڈگریاں پ.سٹڈیز اور جینڈر سٹڈیز میں حاصل کررہے تھے۔ آج، بی ایل اے نے یہ کہا ہے کہ وہ ایک سال پہلے تنظیم کا حصہ بن چکے تھے اور ریاستی ڈیتھ سکواڈز کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے ہیں۔ بہت رنجیدہ ہوں!”

‎بزرگ بلوچ جہدکار اور کالم نگار محمد علی ٹالپر کا کہنا ہے کہ: “ہم نے دو اور بلوچ انکے بہترین ادوار میں ڈیتھ سکواڈز کے ہاتھوں گنوا دئے، ڈیتھ سکواڈز جو بلوچستان بھر میں موجود ہیں۔ وہ اپنے سرزمین سے محبت کرتے تھے اور اپنے لوگوں پر کی جانے والی ناانصافیوں کیخلاف مزاحمت کررہے تھے۔”

‎پشتون ایکٹیوسٹ خان زمان کاکڑ نے کہا، “یہ بہت ہی دردناک ہے۔ سکون سے رہنا میرے بلوچ بھائیوں احسان اور شہداد۔ امید کرتا ہوں ہم دوبارہ کسی اور دنیا میں ملینگے۔ یہ آپ کا حق تھا کہ آپ اپنی زندگی اس طرح جیتے جس طرح آپ نے سوچا تھا اپنے اور اپنے لوگوں کیلئے۔ آپ نے حق نہ ملنے پر مزاحمت کی اور بلوچستان میں مشہور بہترین انجام کو گلے لگایا۔

‎کثیر تعداد میں بلوچ ایکٹیوسٹوں نے اپنے پروفائل تصاویر بدل کر انکی جگہ شہداد اور احسان کی تصاویر لگا گر “قومی ہیروز” کو خراج عقیدت پیش کیا۔

‎یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان مسلح تحریک کا حصہ بنے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک اور تعلیم یافتہ نوجوان اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے کمانڈر، نور محمد المعروف میجر پیرک، پاکستانی فورسز کے خلاف پنجگور کے علاقے پروم میں ایک جھڑپ کے دوران مارے گئے تھے۔ نور محمد کنگ ایڈورڈز کالج لاہور کے طالب علم تھے جب انہیں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے رہا ہونے کے بعد مسلح جدوجہد میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور بڑھتے بڑھتے ایک کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوگئے تھے۔

‎یقین کیا جاتا ہے کہ ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان اب بھی بلوچ مسلح جدوجہد کا حصہ ہیں، جن میں سے کثیر تعداد میں مخلتف فوجی آپریشنز میں مارے جاچکے ہیں۔