عظیم باپ کے بیٹے ہونے پہ فخر – حبیب بلوچ

831

عظیم باپ کے بیٹے ہونے پہ فخر

تحریر: حبیب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اپنوں سے بچھڑکر ہر موڑ پہ موت کو آغوش میں لینا، ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، شاید بہت سارے لوگوں کو عجیب لگتا ہوگا، مگر کچھ لوگ میدان جنگ میں آکر اپنا سینہ تاں کر موت کو مسکراتے مسکراتے گلے لگاتے ہیں، اپنی ساری امیدیں اور خواہشیں اپنے آنے والی نسلوں کی خوشحالی کےلئے قربان کرتے ہیں، کتنے نڈر اور بہادُر ہوتے ہیں وہ لوگ جو ہر مشکل گھڑی میں دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ہیں. وطن کے جانباز اور ایماندار سپاہی وہ ہوتے ہیں، جب میدان جنگ میں آکر دشمن کے خلاف ہر فیصلے کو قبول کرتے ہیں اور وہ آخری دم اور آخری گولی کی انتظار کرتے ہیں اور وقت آنے پہ آخری گولی اپنے سینے میں خود اتار دیتے ہیں اور دشمن کے ہاتھ آنے کے بجائے موت کے آغوش میں سونے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے مرنے سے ہمارے آنے والی نسلیں خوشحال زندگی گزاریں۔

ایک ماں کے لئے اس کو اولاد کتنے عزیز ہوتے ہیں، شاہد بحیثیت مرد میں یہ محسوس نہیں کرسکتا کہ کتنے عزیز ہوتے ہیں اور ہر باپ اپنے بیٹوں کے لئے کتنا شفیق ہوتا ہے، باپ کے سائے سے محروم شاید میں یہ بھی محسوس نہیں کرسکتا، میرا ابو وطن کے لئے دیوانہ تھا، دشمن نے انہیں بے رحمی سے شہید کردیا، مگر میں اپنے آپ کو خوش سمجھتا ہوں کہ میں ایک ایک ایسے بہادر باپ کا بیٹا ہوں، جو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اس سرزمین کے لئے امر ہوگئے، جب میں اپنے ابو کے بارے میں سوچتا ہوں تب مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک وطن کے جانباز سپوت کا بیٹا ہوں۔

جب میں بہت چھوٹا تھا مجھے پڑھائی کا بہت زیادہ شوق تھا، بلوچستان کی بگڑتی ہوئی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی تھی۔ لوگوں کے اندر خوف پھیل چکا تھا، روزانہ پاکستانی فوج غریب اور معصوم لوگوں کو مار کر ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکتا تھا۔ بہت سارے لوگ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر مہاجرین کی زندگی گذارنے پہ مجبور ہوئے، پاکستانی فوج اور ان کے ایجنسوں نے بیشتر لوگوں کے گھروں کو جلایا ان لوگوں کو گاوں چھوڑنے پر مجبور کیا لوگ ذہنی طور پر بہت ٹارچر ہوتے جارہے تھے، بہت مشکل حالات سے گذر رہے تھے، ہم بھی انہی حالتوں سے دوچار تھے، میرے ابو لوگوں کو اس طرح دیکھ کر بہت افسوس کیا کرتے تھے۔ میرے ابو نے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے پہاڑوں کا رخ کیا، میرے ابو نے مجھے پڑھنے کے لئے شہر بھیج دیا، مجھے اپنے دوست اور فیملی سے الگ ہونا پڑا، میں نہیں چاہتا تھا کہ میں اپنی ماں، باپ دوست اور آبائی علاقہ چھوڑ کر اور کسی دوسرے انجان شہر میں زندگی گزاروں، ان حالتوں کو دیکھ کر مجھے کچھ عجیب لگ رہا تھا میں بہت خوفزدہ تھا، پھر بھی میں ان سب چیزوں کو نظر انداز کررہا تھا اپنے پڑھائی پر توجہ دے رہا تھا، میری قابلیت اتنی نہیں تھی کہ میں خود کو سنبھال سکوں۔

اس وقت حالات بہت نازک تھے ہر دن کسان اور زمینداروں کو اغوا کرکے عقوبت خانوں میں ڈال کر ان کو ٹارچر کیا کرتے تھے،(ابھی تک ہزاروں کی تعدادمیں لوگ لاپتہ ہیں)اس وقت پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں اپنی پوری طاقت استمعال کر رہے تھے، اس وقت وہاں انسانیت نامی چیز نہیں تھا، وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بلوچ جدوجہد منزل جانب گامزن تھا، دشمن اپنی ہر چال استعمال کررہا تھا لیکن ان کی ہر کوشش ناکام ہوتےجارہے تھے، لوگوں کے ساتھ بہت زیادتی ہورہی تھی پورے گاؤں کے گاؤں خالی کردئے گئے لوگوں کا جینا حرام ہوتا جارہا تھا۔

جب میں اپنے باپ کے ساتھ فون پہ بات کیا کرتا تھا، وہ صرف مجھے پڑھائی کے بارے پوچھتا تھا، مجھے پڑھائی کے بارے میں نصیحت کیا کرتا تھا، وقت گزرتا جارہا تھا، میں پڑھائی میں مصروف تھا، مجھے ایک سال مکمل ہوچکا تھا کہ اپنوں سے دور تھا، پھر مجھے اپنی امی، ابو ،چھوٹے بھائی سب کی بہت یاد ستانے لگا، میں بہت زیادہ بےچین تھا اس وقت پتہ نہیں مجھے کچھ عجیب لگ رہا تھا۔

ایک دن آیا، وہ لمحات میرے لئے بہت قیمتی تھے، جب میں اپنی ابو کی طرف جارہا تھا، مجھے پتہ تھا ہی نہیں کہ وہ آخری ملاقات ہوگی، میری زندگی بدلنے والی ہے لیکن لوگوں نے وہ انمول لمحات مجھ سے چھین لئے 22 اگست 2017 کا دن میرے زندگی کو ہلا کر رکھ دینے والا تھا۔ 22 اگست کو میرا ابو شہید غنی بلوچ بہادری سے لڑ کر اپنے ایک عظیم ساتھی شہید عبدالمالک کے ساتھ شہید ہوا۔ اور آج مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایسے شخص کا بیٹا ہوں جو اپنی سرزمین کے لئے امر ہوگیا اور میرے ابو نے جو راہ چن لیا، اب مجھے بھی اسی راستے پہ چلنا ہوگا اور میرے باپ نے اپنے حصہ کا قربانی دے دیا ہے اب مجھے بھی دینا ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔