زندان فراموشاں میں زندان گزیدہ – سسی بلوچ

302

زندان فراموشاں میں زندان گزیدہ

تحریر: سسی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندان میں خوشبو نے زندان کے میلے کچیلے دیواروں کو اپنی بو سے مہکا دیا، روشنی نے کبھی سیاہ دیوار کو ٹکرایا نا تھا، لالٹین کی طرح معدوم روشنی نے سیاہ دیواروں کو روشنی سے چمکا دیا، عجیب خوشبو، روشنی، خوشی نے کالی کوٹھڑی کو کبھی دیکھا نا تھا۔ خوشی سے جھوم اٹھا حمل گذشتہ 10 سالوں سے اس کالی کوٹھڑی میں بند پڑا تھا۔ حمل کا شیدائی اب یہ سیاہ دیوار بھی ہوچکا تھا۔ کال کوٹھڑی میں موجود پٹھے پرانے بوسیدہ کمبل سے بھی خوشبو محسوس ہورہی تھی، گویا آج حمل کی شادی کی مہک ہے، سانکلوں میں زنگ کے بجائے مہندی کی خوشبو تھی، کال کوٹھڑی میں بند پڑا حمل کشمکش کا شکار تھا، کبھی اچھلتا، کبھی کودتا، آخر ایک کونے میں بیٹھ کر سوچنے لگا ۔

میں کون ہوں؟ یہ روز مجھ سے پوچھتے ہیں، میرا نام یہ حمل بتاتے ہیں، نام کیا ہے کیوں رکھا جاتا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں؟ مجھے روز پیٹتے ہیں، سوال کرتے ہیں، میرا کسی سے تعلق نہیں، ہاں میں کتابوں کو جانتا ہوں، کافکا، فینن، چے گویرا، لینن یہ کون ہیں میں انہیں کیسے جانتا ہوں؟ ہاں نیلسن منڈیلا میرے خوابوں میں کیوں آتا ہے؟ وہ کہتا ہے میں 20سال جیل میں رہا ہوں وہ مجھے کیسے جانتا ہے یہاں کتاب نہیں ملتا میں کتابوں کا بھوکا ہوں ۔ حمل 10سال کی قید و بند کی وجہ سے اپنے ہوش سے خائف ہو چکا تھا۔

ساتھ والے کمرے سے چلانے رونے کی آوازیں آرہی تھیں، حمل نے کھڑے ہونے کی کوشش کی پاؤں میں تکلیف ہونے کی وجہ سے کھڑا نا ہو سکا کیونکہ ساتھ والے کوٹھڑی سے عرصے بعد آوازیں آرہی تھیں۔

تھوڑی سناٹے کے بعد درد بھری آوازیں آرہی تھیں، حمل کو یہ آواز اپنی طرف کھینچ رہی تھی، حمل نےدھیمی آواز سے بات کرنے کی کوشش کی آپ کون ہو یہاں کیا کر رہے ہو؟ یہ آپ کو کیوں مار رہے ہیں۔

ساتھ والے کمرے سے آواز آئی میرا نام چاکر ہے، مجھے یہاں آج لایا گیا ہے، پتہ نہیں مجھ سے کیا چاہتے ہیں اور آپ کون ہیں کب سے یہاں ہو۔

میں! میں؟ یہ لوگ مجھے حمل بول کر پکارتے ہیں، میں نہیں جانتا میں کب سے یہاں ہوں، مجھے یاد نہیں آپ کے پاس کتاب ہے مجھے دوگے پڑھنے کے لیے۔۔

حمل؟ کیا آپ حمل ہو؟ آپ زندہ ہو؟ حمل یار میری درد چلی گئی، حمل میں آپ کو دیکھ نہیں سکتا واقعی آپکی آواز حمل کی ہے۔

آپ مجھے کیسے جانتے ہو میں کون ہوں؟ حمل درد بھری کہانی ہے، یہ شے مرید اور حانی کی داستان کی طرح لمبی ہے، حمل آپ 10 سالوں سے لاپتہ ہو، آپ اپنے قوم کی راہشون ہوا کرتے تھے۔

حمل آپ نے اپنا نام چاکر بولا ہاں چاکر مجھے کچھ یاد نہیں میں نہیں جانتا، روشنی کیا ہے؟ سورج کیا ہے؟ بہار کیا ہے؟ بارش کیسے برستی ہے؟ برف کیسے گرتے ہیں؟ پھول کیسے ہوتے ہیں؟ مجھے ایک بوڑھی چہرہ یاد ہے، روز مجھے ناشتہ کرواتی، کھانا کھلاتی، کتابوں کو سمیٹتی، کیا وہ میری ماں ہے؟

چاکر کے چہرے پر خوشی کے آنسو ٹپک کر فرش پر پڑے خون کو دھو رہے تھے، دونوں دیوار سے سر لگا کر بات کررہے تھے، حمل آپ کالی ٹوپی پہنتے تھے، آپکے سنہرے بال، لمبے مونچھ، طویل قامت اور لاغر جسم کے نوجوان تھے ہاں حمل جان وہ بوڑھی عورت آپکی ماں ہے، دس سالوں سے آپکی تصویر سینے پر لگا کر آپ کی راہ تک رہی ہے، روز ہر گذرنے والے مسافر کاروان سے پوچھتی ہے، کیا آپ نے میرے حمل جان کو دیکھا ہے؟ ہر عید کو آپ کے لیے نئے کپڑے لیتی ہے آپکے آنے کا منتظر ہے، حمل جان آپ کے دو بہن دو بھائی ہیں، آپکی بہنیں آج بھی کسی اچھی لڑکی کو دیکھ کر آپ کی ہمسفر بنانے کی خواہش رکھتی ہیں۔

حمل چاکر کی باتیں سںنتے جارہا تھا، حمل کو اصل حمل کی باتیں، ارادے، سب یاد آرہے تھے۔ آہ سسکیوں کے ساتھ ہر فلیش بیک کو گویا کسی اسکرین میں دیکھ رہا تھا، حمل کو اپنا مہرجان یاد آیا، اس کی دی ہوئی رومال، گھڑی۔۔۔

چاکر میری امی جان کہاں ہے؟ کیسی ہے؟ وہ ٹھیک ہے؟ میری بہنا ، ڈاکٹر بنی ؟ میرا بھائی انجینئر بنا؟ میری ماں نے برسوں میرے والد کی جدائی برداشت کی، مجھے کھونا اس کے لیے ناقابل برداشت ہے، کیاوہ اتنا سکت رکھتی ہے۔

حمل کو اپنی والدہ کی باتیں ، مسکراہٹ، ہنسی، ڈانٹ، پیار کرنا، سب سیاہ دیوار کے سامنے سے نظر آرہے تھے، جلسہ میں سیکنڑوں طلباء وطالبات کے سامنے بلیک کپڑوں میں ملبوس حمل یاد آیا، جو ایک مسکراہٹ بھرے تقریر میں ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا رہا تھا۔

باہر دور دور سے مادر ڈے کی آوازیں، فضا میں گو نج رہی تھیں، حمل اپنے دس سالوں سے دور ماں کی یاد میں مادر ڈے کال کوٹھڑی میں منا رہا تھا۔ حمل نے جب آنکھیں کھولیں، وہی بوسیدہ کمبل، وہی سیاہ دیوار، وہی سانکل، وہی اندھیرا، حمل کے خواب میں جستجو نے اسے اصل حمل سے ملایا۔ زندان بان کی آنے کی آہٹ آرہی تھی، زندان گزیدہ حمل گذشتہ دس سالوں سے لاپتہ حمل نکلا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔